مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وہ قوم اپنے حقوق کا کیا تحفظ کرے گی جس کا سیاسی حافظہ صرف دس دن کی یادداشت ہی محفوظ رکھتا ہے۔ آپ ایک ہی بات سمجھانے کے لئے اوپر تلے کئی کالم لکھ ڈالئے، پھر بھی کچھ عرصے بعد یہ آپ سے یہ سوال ضرور پوچھے گی کہ زلیخا مرد تھا یا عورت؟

اب یہی لے لیجئے کہ شہباز حکومت نے اتفاق فاؤنڈری کے کنگ سائز برشوں سے اسٹیبلیشمنٹ کے بوٹ پالش کرنے شروع کردئیے ہیں تو ہمارا قاری ہم سے ہی اس کی وجہ پوچھ رہا ہے۔ حالانکہ اوپر تلے کئی کالم لکھ کر پچھلے سال ہی آگاہ کرچکے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو والے ضمیر فروشی کر رہے ہیں۔ سو آج کے اس کالم میں پہلے اسی ایم ایم نیوز پر شائع ہونے والے اپنے پچھلے برس کے تین کالموں سے اقتباسات پیش کر دیتا ہوں ۔ یہ اقتباسات پڑھ کر آپ سمجھ جائیں گے پوری سول بیوروکریسی آئی ایس آئی کے توسط سے اسٹیبلیشمنٹ کو بطور سلامی کیوں پیش کی گئی؟ اور یہ کہ منتقم مزاج نواز شریف کے دل میں اچانک جنرل مشرف کے لئے ہمدردی کیوں جاگ گئی ؟

پہلا اقتباس 23 ستمبر 2021کو شائع ہونے والے کالم “جنرل محمود کی مونچھیں” سے ہے۔ اس کالم میں لکھا تھا:

“اس بات سے تو آپ بھی انکار نہیں کر سکتے کہ استاد بڑے شریف خاں ہیں بیشک بے سرے مگر سیانے بہت ہیں۔ ہر بار اپنے راگ بھیرویں کے بعد استاد چھوٹے شریف خاں کو آنکھ مارکر گیٹ نمبر چار پر راگ درباری چھیڑنے کا اشارہ ضرور کرتے ہیں۔ چھوٹے استاد ابھی نچلے سروں والی استھائی پر ہی ہوتے ہیں کہ اندر سے آواز آتی ہے۔

ابے چپ ! ! !

یہ دیکھ کر استاد بڑے شریف خاں طیش میں آکر بھٹیارہ گھرانے کی تیسری صف میں کھڑی “دوشن آرا بیگم” کو آگے کر دیتے ہیں۔ دوشن آرا بیگم کی لیاقت و ریاضت کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ وہ گانا شروع ہی سرگم سے کرتی ہیں مگر چونکہ نوجوانوں کی دلچسپی کا سارا سامان رکھتی ہیں سو پٹواری انہیں “کراؤڈ پُلر” سمجھ کر خوش رہتے ہیں۔ ورنہ پورا عالمِ ترنم تورم میں آکر چونک اٹھتا ہے کہ ہیں ! ! !ا سٹارٹ ہی سرگم سے ؟ ؟ ؟ یوں ہر طرف بحث یہ چھڑ جاتی ہے کہ دوشن آرا بیگم نے جو حرکت کی ہے اس کے نتیجے میں بھٹیارہ گھرانے کا مستقبل مزید کتنا تاریک ہوا ہے ؟ اور اس بحث کے دوران پورا پٹوار خانہ اس بات پر خوش رہتا ہے کہ  ہم آج بھی میڈیا میں اِن ہیں۔

سوچا جاتا ہے کہ ہم آج بھی سیاسی گائیکی میں ریلیونٹ ہیں، یہ کوئی نہیں سوچتا کہ دوشن آرا بیگم کراؤڈ ہی جمع کر رہی ہیں۔ کامیابیاں جمع کرنے میں اب تک ناکام ہیں۔”

اس کے بعد 18 اکتوبر 2021 کو “منصب کی توقیر” کے عنوان سے کالم لکھا۔ اس کالم میں عرض کیا تھا:

“افسوس کا مقام یہ ہے کہ پاناما سکینڈل جیسے عتاب کا نتیجہ بننے کے بعد بھی کچھ نہ سیکھا گیا۔ اب ایک اور سلیکٹڈ وزیر اعظم کو بھی اقتدار کے تیسرے سال اچانک یہ یاد آگیا ہے کہ وزیر اعظم کے منصب کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے تو اس کا ساتھ دینے کی بجائے خاکی رنگ کے کپڑے زیب تن کرکے اسٹیبلیشمنٹ کو محبت بھرے سگنلز دئے جا رہے ہیں۔

خاکی رنگ کے لباس والی مریم نواز کا تو خیر سے سوشل میڈیا پر پورا بریگیڈ بھی ہے۔ وہ بریگیڈ بھی آج کل بغلیں بجا بجا کر نوید سنا رہا ہے کہ خان کی حکومت اب کسی صورت نہیں بچ سکتی۔ اب تو یہ جائے ہی جائے۔ مقام چلو بھر پانی والا ہے کہ یہ بات وہ کر رہے ہیں جو اپنے دم پر پاکستان کی تاریخ کی اس سب سے غیر مقبول حکومت کی ایک اینٹ بھی نہ ہلاسکے۔”

پھر 15 نومبر 2021 کو “مزاحمت، مفاہمت اور منافقت” کے عنوان سے کالم لکھا تھا۔ اس کالم میں صاف صاف لکھا:

“نون لیگ یہ ناٹک رچا رہی ہے کہ اس نے مزاحمتی گروپ اور مفاہمتی گروپ کے نام سے دو کیمپ بنا رکھے ہیں۔ باور یہ کرایا جاتا ہے کہ ایک گروپ مزاحمت اور دوسرا مفاہمت کا قائل ہے۔ مگر حقیقت میں مزاحمتی گروپ کا کام بس اتنا سا ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ کو تنگ کرکے مفاہمت پر آمادہ کیا جائے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مزاحمتی گروپ میں میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے سوا کوئی ہے ہی نہیں۔ کیا ہم نے نون لیگ کے کسی تیسرے رہنما کو جارحانہ تقاریر کرتے دیکھا ہے ؟ خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، خرم دستگیر، حتی کہ مریم نواز کے اتالیق پرویز رشید تک نے کوئی باپ بیٹی سٹائل والی تقریر آج تک کی ؟ پچانوے فیصد نون لیگ کو مفاہمتی گروپ میں رکھ کر میاں نواز شریف انہیں “ناقابل قبول” والی کٹیگری سے ہی بچا تے آئے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بہت اہم ہوجاتا ہے کہ اگر نون لیگ واقعی اینٹی اسٹیبلیشمنٹ ہوچکی ہے تو اس جماعت کی پوری قیادت اینٹی اسٹیبلیشمنٹ موڈ میں کیوں نہیں ہے؟ ذرا غور کیجئے اس جماعت نے پچھلے دو سال کے دوران کوئی ایسا تنہا جلسہ عام بھی نہیں کیا جہاں اس کی پوری قیادت کو تقاریر کرنی پڑی ہوں اور یہ جلسے ووٹ کی عزت کیلئے ہوئے ہوں۔ اس عرصے میں اس کے سارے تنہا جلسے انتخابی جلسے ہی رہے ہیں اور دھواں دھار تقاریر صرف مریم نواز نے ہی کی ہیں۔

جو رہی سہی خوش فہمی تھی وہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے حالیہ معاملے میں ہی ہوا ہوگئی۔ موجودہ وزیر اعظم اسٹیبلیشمنٹ کے مقابل کھڑے ہیں تو نون لیگ اپنا وزن اسٹیبلیشمنٹ کے پلڑے میں ڈال رہی ہے۔ نجم سیٹھی لندن میں ہیں۔ نواز شریف سے اپنی ملاقات کے بعد سے وہ مسلسل یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ نون لیگ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب اسٹیبلیشمنٹ کو ٹارگٹ نہیں کرے گی، اپنی ساری توپوں کا رخ عمران خان کی جانب موڑے گی۔ کسی کو یاد ہے آج سے ٹھیک ایک سال قبل پی ڈی ایم کے جلسے میں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے کیا کہا تھا ؟ یہی کہ عمران خان سے ہماری کوئی لڑائی نہیں، ہماری لڑائی اسے لانے والوں سے ہے، عمران خان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔ اور اسی چیز کو “مزاحمت” کا نام دیا گیا تھا۔ اب ایک سال کے سفر کے بعد عمران خان یکایک “اہم” کیسے ہوگیا۔ اتنا اہم کہ نواز شریف نے فیصلہ ہی یہ کرلیا کہ اب ہم اسٹیبلیشمنٹ کو کچھ نہ کہیں گے، اپنی ساری توپیں عمران خان پر ہی داغیں گے۔ یہ بدترین درجے کی موقع پرستی اور منافقت ہے۔

جوں ہی میاں نواز شریف کو یہ نظر آیا کہ اسٹیبلیشمنٹ شدید مشکل میں ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے آرمی چیف کی برطرفی کا امکان ہے تو اس نازک صورتحال میں فوراً ساری توپوں کا رخ عمران خان کی جانب کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ اور تماشا دیکھئے کہ پٹواری تجزیہ کار پورے دھڑلے سے اس منافقت کو “مزاحمت کی کامیابی” قرار دے رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نواز شریف سے مزاحمت والا کارڈ ہی چھین چکے۔ اس وقت تو مزاحمت عمران خان کر رہے ہیں۔ نواز شریف تو ایک پیر اسٹیبلیشمنٹ کے خیمے میں رکھ کر پوچھ رہے ہیں “کیا میں اندر آسکتا ہوں سر ؟”
یوں اس موجودہ ہائبرڈ نظام نے پاکستانی سیاست میں بنے ماضی کے سارے تاثر مٹا کر رکھ دیئے ہیں۔ اور یہ بات واضح ہوکر سامنے آگئی ہے کہ ووٹ کو عزت دو کا ڈرامہ رچانے والے نواز شریف بھی اپنے دم پر نہ تو عمران خان جیسی تاریخ کی سب سے غیر مقبول حکومت کو چلتا کرسکتے ہیں اور نہ ہی اسٹیبلیشمنٹ کی چھتری کے بغیر اقتدار میں آسکتے ہیں۔ چنانچہ مقابلہ ان کا اس وقت اس پیپلزپارٹی سے ہی ہے جو اسٹیبلیشمنٹ کے زنان خانے میں نون لیگ کی جگہ لینے کی ساری تیاریاں کرچکی۔ اور پیپلز پارٹی اس کا پریشر محسوس بھی کرنے لگی ہے۔ جس کا اظہار دو روز قبل پیپلز پارٹی پنجاب کے ناکام رہنما قمر الزمان کائرہ نے یہ کہہ کر کیا ہے کہ نون لیگ واضح کرے کہ وہ مزاحمت کرنا چاہتی ہے یا مفاہمت ؟ اور یہ مفاہمت وہ کرنا کس سے چاہتی ہے ؟ غور کیجئے کائرہ مزاحمت کا نہیں پوچھ رہے کہ کس کے خلاف ہو رہی ہے ؟ مفاہمت کا پوچھ رہے ہیں۔ کیونکہ ٹینشن انہیں مزاحمت نہیں، مفاہمت کے امکان نے ہی دے رکھی ہے۔ اس صورتحال میں پٹواری تجزیہ کار شوق سے مزاحمت والا چورن یہ کہہ کر بیچتے رہیں کہ مزاحمت کے نتائج ظاہر ہونے والے ہیں۔ ہم یہ چورن مزید نہ بیچیں گے، کیونکہ ہم سمجھ چکے کہ مزاحمت تھی نہ ہی مفاہمت، بس نری منافقت ہی تھی۔”

کیا ان اقتباسات سے واضح نہیں کہ نون لیگ اسٹیبلیشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار تھی ؟ اس نے اپنی صفوں سے جو “خادم اعلی” بطور وزیر اعظم پیش کیا ہے اس کا تو 30 برس سے تعارف ہی یہ ہے کہ یہ گیٹ نمبر چار کا سب سے قابل اعتماد اور محبوب سیاستدان ہے۔ مگر جو چیز قابل توجہ ہے وہ یہ کہ یہ آپشن تو خود اسٹیبلیشمنٹ 2018 کے الیکشن سے قبل نون لیگ کو دے چکی تھی کہ ہم نون لیگ نہیں صرف نواز شریف کو آؤٹ کرنے کا پروگرام رکھتے ہیں۔ میاں نواز شریف کچھ عرصے کے لئے بیرون ملک چلے جائیں تو 2018ء کے انتخابات شفاف کروا کر شہباز شریف کو بطور وزیر اعظم قبول کرلیں گے۔ نواز شریف نہ مانے تو اسٹیبلیمشنٹ کو آرٹی ایس بٹھا کر عمران خان کو لانا پڑا۔ سو ایسے میں سوال یہ ہے کہ اگر 2022 میں آکر وہی قبول کرنا تھا جس کی آفر 2018ء میں اسٹیبلیشمنٹ دے رہی تھی تو پھر یہ مزاحمت والی ڈرامے بازی کے نام پر سو پیاز اور سو جوتے کھانے کیوں ضروری سمجھ لئے گئے ؟ اگر یہی شرط تب مان لی جاتی تو کیا آج عام شہری معاشی بحران کی چکی میں پس رہا ہوتا ؟ کیا “میاؤں صاحب” ہمیں سمجھا سکتے ہیں کہ اگر جھکنا ہی تھا تو وقت پر کیوں نہیں جھکے ؟

Related Posts