سیمی فائنل میں شکست کی وجوہات، مستقبل میں کیا پلاننگ ہونی چاہیے ؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ مرحلے میں آسٹریلیا سے شکست کے بعد میگا ایونٹ سے باہر ہوچکی ہے۔ جہاں اس ایونٹ میں قومی کرکٹ ٹیم نے کئی نئے ریکارڈز قائم کئے وہیں عالمی مقابلے کیلئے ٹیم میں چند خامیاں اور منصوبہ بندی کا فقدان بھی نمایاں طور پر سامنے آیا۔
آیئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کیلئے پاکستان کی ٹیم، تیاری اور پلاننگ کا ایک جائز ہ لیتے ہیں۔

قومی ٹیم کی سلیکشن
کسی بھی مقابلے کیلئے ٹیم کا چناؤسب سے اہم ہوتا ہے کہ ٹیم میں بیٹر، باؤلر اور آل راؤنڈرز کو کس طرح شامل کرنا ہے اور کس کھلاڑی کو کب کہاں استعمال کرنا ہے تاہم پاکستان کی جانب سے میگا ایونٹ کیلئے منتخب کردہ ٹیم میں دو بار تبدیلیاں کی گئی اور ان تبدیلیوں کی وجہ سے منتخب کردہ کھلاڑیوں میں بھی ایک غیر یقینی صورتحال تھی کہ پتا نہیں کب انہیں بھی کسی دوسرے کھلاڑی کے ساتھ بدل دیا جائے۔

کون اندر کون باہر ہوا
چیف سلیکٹر محمد وسیم نے ابتداء میں 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کیا جس میں پہلے اعظم خان، محمد حسنین، محمد نواز،صہیب مقصود اور خوشدل شاہ کو اسکواڈ میں شامل کیا گیا بعد میں ان کو باہر کردیا گیا اور پھر دوبارہ خوشدل شاہ اور محمد نواز کو ٹریولنگ ریزرو میں شامل کرلیا گیا۔یہ ایک ایسا اقدام تھا جس سے کھلاڑیوں میں بددلی پھیلی اور بار بار کی تبدیلیوں نے حتمی ٹیم کی تیاری کیلئے مینجمنٹ کو شدید پریشان کیا۔

ٹیم میں توازن
یوں تو پاکستان ٹیم میں تبدیلیوں کے بعد ایک متوازن اسکواڈ ترتیب دیا گیا اور اوپنر، مڈل آرڈر، ہارڈ ہٹر، پیسر، اسپنر اور وکٹ کیپر سمیت ہر شعبہ سے دو دو ماہرین شامل کئے گئے لیکن جن کھلاڑیوں کو آرام دیا گیا ان کو بھی موقع دیا جاتا تو شائد نتیجہ مختلف ہوسکتا تھا۔

قومی ٹیم میں شامل محمد وسیم جونیئر، محمد نواز اور حیدر علی کو ایونٹ میں موقع دیکر نتائج حاصل کئے جاسکتے تھےتاہم کپتان اور انتظامیہ نے پورے ایونٹ میں ایک ہی ٹیم میدان میں اتاری جو ان کی نظر میں بہترین ٹیم تھی ۔

ناتجربہ کاری
بابر اعظم یوں تو اس وقت دنیائے کرکٹ پر راج کرنے والے بے تاج بادشاہ ہیں لیکن جہاں تک قیادت کی بات ہے تو یہ ایک الگ شعبہ ہے۔

آج دنیا میں بہترین پرفارمرز کو کپتان بنانے کا رجحان زیادہ ہے جبکہ اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو کئی مضبوط ٹیموں میں شاندار ریکارڈ کے حامل کھلاڑیوں کے بجائے اوسط درجہ کے کھلاڑی کو کپتان بنایا جاتا رہا ہے کیونکہ انفرادی کارکردگی اور قیادت یکسر مختلف چیزیں ہیں۔

اس ایونٹ میں بابر اعظم انفرادی طور پر تو سو فیصد کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے لیکن بطور کپتان ان کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے کئی بار مشکلات پیش آئیں تاہم جیت کی وجہ سے انہیں نظر انداز کردیا گیا۔

منصوبہ بندی کی کمی
آسٹریلیا کے بعد پاکستان ٹیم سب سے زیادہ میگا ایونٹس کے سیمی فائنل کھیلنے والی ٹیم ہے اور 2 بار فائنل میں پہنچ کر ایک ایونٹ جیت چکے ہیں جبکہ دیگر میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔یہاں یہ بات قابل تعریف ہے کہ قومی ٹیم پہلی بار اگر مگر یا اعدادوشمار کے کھیل سے آزاد ہوکر سیمی فائنل میں پہنچی لیکن اس دباؤ والے میچ میں پلاننگ کی کمی نمایاں رہی۔

سیمی فائنل ایک پریشر والا مقابلہ ہوتا اور ایک نوجوان کپتان کو ٹیم انتظامیہ اور بورڈ کی طرف سے اتنی سمجھ بوجھ دینی چاہیے کہ ماضی کے کپتان جو غلطیاں کرتے آئے ہیں وہ اس بار نہیں دہرائی جائیں اور اس کو اعصاب پر قابو رکھنا سکھایا جائے کہ کیسے پریشر سے نکل کر ٹیم سے نتائج لینے ہیں۔ کیسے کھلاڑیوں کو ریلیکس رکھنا ہے، کیچ چھوٹنے یا مس فیلڈنگ کے بعد کیسےمیچ میں واپس آنا ہے اور فیلڈنگ کے دوران کیسے فعال رہنا ہے۔

کیچ ون میچ
کرکٹ ماہرین کیچ ون میچ کا مقولہ یونہی نہیں دہراتے بلکہ اس کے پیچھے ایک منطق ہے کہ جہاں آپ نے کیچ ڈراپ کیا آپ فتح سے دور ہوجاتے ہیں اور پچھلے ٹی ٹوئنٹی میں بھی پاکستان کے ساتھ یہی ہوا تھا جب راحت علی نے وہاب ریاض کی گیند پر شین واٹسن کا کیچ چھوڑ کر ٹیم کو فتح سے دور دھکیل دیا تھا اور حالیہ ایونٹ میں بھی حسن علی کے ڈراپ کیچ کی وجہ سے میچ پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا۔

مستقبل کی پلاننگ
قومی ٹیم کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ مسلسل پانچ یا 6 میچوں میں یکساں ٹیم کھلانے کے بجائے ایک یا دو تبدیلیاں کرنے سے زیادہ اچھے نتائج مل سکتے ہیں لیکن کپتان پورے ایونٹ میں بغیر تبدیلیوں کے ایک ہی ٹیم پر منحصر رہے جو کہ مناسب عمل نہیں تھا۔

ہمیں اس شکست سے سیکھنے اور خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ آنیوالے ایونٹس میں ہم اس سے بہتر کھیل پیش کرکے فاتح بن کر لوٹیں۔

Related Posts