گزشتہ روزملک کے مختلف شہروں میں نوجوانوں کی جانب سے طلبا یکجہتی مارچ کا انعقاد کیا گیا، طلبہ یونین کی بحالی کے لیےکراچی،لاہور ، اسلام آباداور پشاور سمیت کئی شہروں میں نوجوان بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے اور مطالبہ کیا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ سیاست پر لگی پابندی فوراً ختم کی جائے۔
کراچی میں مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ نے ریگل چوک سے پریس کلب تک پیدل مارچ کیا اور ڈھول کی تھاپ پر طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کیا،مارچ میں طالبات کی بھی بڑی تعداد شریک تھی۔
لاہور میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے پریس کلب سے پنجاب اسمبلی بلڈنگ تک ریلی لکالی اور مطالبات کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد نے یونین کی بحالی کے لیے نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا، طالبات نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ان کے مطالبات درج تھے۔
پشاور میں طلبہ پریس کلب سے خیبر پختونخوا اسمبلی کی عمارت تک مارچ کیا اور طلبہ یونین کی فوری بحالی اور یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کا مطالبہ کیا۔
طلبہ یکجہتی مارچ کے شرکاء کے مطالبات میں سٹوڈنٹس یونینز کی بحالی، تعلیمی بجٹ میں اضافہ، فیسوں میں کمی، اداروں میں جنسی ہراسگی کے خلاف قانون پر مؤثر عمل درآمد، اداروں کی نجکاری سے اجتناب اور جنسی ہراسگی کے واقعات کی کھلی تحقیقات سمیت بہت سے مطالبات شامل تھے۔
رواں ماہ لاہور میں منعقد فیض فیسٹول میں پنجاب یونیورسٹی کے نوجوانوں کی ویڈیوسوشل میڈیاپروائرل ہوئی تھی جس میں نوجوان طلبہ نے بسمل عظیم آبادی کی نظم”سرفروشی کی تمنااب ہمارے دل میں ہے” پڑھتے ہوئے طلبہ یونین بحالی کو ایک تحریک میں تبدیل کر دیاتھا۔
اس مجمع میں سب سے پرجوش اور بلند آواز عروج اورنگزیب کی تھی، کالی جیکٹ پہنےعروج اورنگزیب نامی خاتون بڑے جوش و جذبے سے نعرے بازی کررہی تھی ۔
سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کے کئی کارکنوں اور مبصرین نے ان کے جذباتی انداز کی داد دی تھی تاہم سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ان کامذاق بھی اڑایاگیاتھا ،کچھ نے ان طلبہ کو ‘لبرل اور لیفٹی کہہ کر مسترد کیا تو بعض نےانہیں ‘دیسی سُرخے، برگر بچے اور کنفیوزڈ نسل قرار دیاتھا۔
پروگریسیو سٹوڈنٹس کلیکٹیو، سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور ان کے ساتھ شامل دیگر طلبہ تنظیموں نے اپنی آواز بلند کرنے کے لیے پاکستان کے مختلف شہروں میں 29 نومبر کو طلبہ یکجہتی مارچ کا اعلان کیاتھا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے طلبہ یونینز کی بحالی کی حمایت کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ معاشرے کو غیر سیاسی بنانے کے لیے طلبہ یونینز کی بحالی کا خاتمہ کیا گیا، انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی طلبہ یونینز کی بحالی کی حامی ہے، پیپلزپارٹی نے ہمیشہ طلبہ یونین کی حمایت کی ہے۔
The PPP has always supported Student unions. The restoration of student unions by SMBB was purposely undone to depoliticize society. Today students are marching in the #StudentSolidarityMarch for the restoration of unions, implementation of right to education, 1/2
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) November 29, 2019
فاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے طلبہ یونینز پر پابندی کو جمہوریت کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ طلبہ یونین پرپابندی مستقبل کی سیاست کو محدود کرنے کےمترادف ہے، طلبہ سیاست کو تشدد سے پاک بنانے کے لیے اقدامات کیے جاسکتےہیں لیکن طلبہ سیاست پرپابندی غیرجمہوری اقدام ہے۔
I fully support Restoration of students unions, ban on students unions is anti democratic,we can always ensure that students politics must remain violence free and regulations may be introduced for smooth functioning but ban on students politics amounts to limit future politics
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) November 29, 2019