پاک افغان تعلقات

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ دوستی اور دشمنی کا انتخاب پاکستان ہی کو کرنا ہوگا کہ وہ افغانستان کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں یا دشمنی۔ ان کے الفاظ تھے کہ پاکستان کے لیے فیصلے کا وقت ہے، اگر ہمارا ملک عدم استحکام کا شکار رہا تو پاکستان بھی ہوگا اور اگر وہ ہمارے ملک کی بہتری چاہتے ہیں، تو اس میں اُن کی بھی بہتری ہوگی۔

افغان صدر کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان افغانستان سے دوستی چاہتا ہے تو افغانستان خطے اور دنیا کے ممالک کے مابین تعاون بڑھانے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہے۔ اشرف غنی کاکہنا ہے کہ دو سال سے اُن کا ملک ہر طرح سے تیار ہے اور بین الاقوامی افواج کے انخلا سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اشرف غنی کا یہ بیان امریکی صدر جوبائیڈن کے اُس بیان کے بعد سامنے آرہا ہے جس میں امریکی صدر نے رواں سال ستمبر تک افغانستان سے تمام بین الاقوامی افواج کے انخلاء کا اعلان کیا تھا۔

اگرچہ امریکی صدر کے اس اعلان کے بعد کابل میں بیشتر حلقوں میں یہ تشویش پیدا ہوئی ہے کہ بین الاقوامی افواج کے بعد افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کی طرف جاسکتا ہے۔ تاہم افغان صدر کا کہنا تھا کہ وہ آج سے نہیں بلکہ دو سال سے اس انخلا کے لیے تیار تھے۔

پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی ہرزہ سرائیوں اور جارحیت کو نظر انداز کرکے افغانستان کی بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں اور ہمسایہ ملک میں امن کیلئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں بھی پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

دوروز قبل بھی پاکستانی وزیرخارجہ نے افغان ہم منصب سے کہا کہ قیام امن کے لیے پاکستان ہمیشہ مثبت مصالحانہ کردار ادا کرتا رہے گا اور اُن کی خواہش ہوگی کہ طالبان ترکی میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کریں۔

اشرف غنی افغانستان کے صدر بننے کے بعد پاکستان کے حوالے سے اکثر شکوک کا اظہار اور تنازعات کو ہوا دینے کا سبب بنتے رہے ہیں جبکہ گزشتہ سال عید کے موقع پر جنگ بندی سے قبل بھی افغان صدر کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

افغان صدر نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ پاکستان کیسے دوستی اور دشمنی کرسکتا ہے تاہم ماضی میں افغان حکومت پاکستان پر الزام لگاتی آئی ہے کہ اُن کا طالبان پر نہ صرف اثر ورسوخ ہے بلکہ اُن کی حمایت بھی حاصل ہے تاہم اشرف غنی کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ پاکستان نے گذشتہ برسوں کے دوران افغان حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھنے کے لیے طالبان کو قائل کرنے کا خاموش مگر اہم کردار ادا کیا ہے،پاکستان کی مدد سے ہی دوحہ میں تاریخی امن معاہدہ طے پایا اورکئی موقعوں پر امریکی حکام نے پاکستان کے کردار کی تعریف کی ہے ۔

پاکستان نے افغان جنگ کے دوران بھاری جانی و مالی نقصان کے باوجود ہمیشہ افغانستان میں امن کی حمایت کی ہے تاہم گزشتہ کئی سالوں سے پاک افغان تعلقات سرد مہری کا شکار رہے ہیں حالانکہ پاکستان کی مکمل حمایت کے بغیر بین الافغان مذاکرات ممکن نہ ہو پاتے، اس لئے افغان صدر پاکستان کی نیک نیتی پر شبہ کرنے کے بجائے اپنے ملک کے حالات کو بہتر بنائیں تاکہ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کہیں دوبارہ بدامنی کی لپیٹ میں نہ آجائے۔

Related Posts