افغان امن عمل اور جنگِ ویتنام

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کئی ماہ کی خانہ جنگی اور مذاکرات کی دوبارہ بحالی کے بعد امریکا نے رواں برس ستمبر 2021ء تک افغانستان سے اپنی باقی ماندہ فوج وطن واپس بلانے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے فوج کے انخلاء کیلئے 11 ستمبر کی تاریخ مقرر کی ہے جبکہ بہت سے حلقے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت کو القاعدہ کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کی تاریخ مقرر کیے جانے پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں جس کے بعد ہی افغانستان پر چڑھائی کا اعلان سامنے آیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت صدر جو بائیڈن نائب صدر بن چکے تھے جنہوں نے کچھ ہی سال قبل افغان دارالحکومت کابل کا دورہ کیا اور وعدہ کیا کہ افغانستان میں مستحکم امن قائم ہوگا جبکہ جو بائیڈن نے افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کی موجودگی کو ناپسندیدہ بھی قرار دیا تھا۔ افغان فورسز کو اپنے ملک کی حفاظت کرنی چاہئے لیکن افغانستان کو ترقی کرنے کیلئے ضروری امداد بھی ملنی چاہئے۔

صدر جو بائیڈن نے مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے حل پر زور دیا ہے اور اب وہ فوج کے انخلاء کیلئے نائن الیون کی تاریخ کا انتخاب کرتے بھی نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ 20 سال ایک طویل عرصہ ہے اور یہ امریکا کی تاریخ کی طویل ترین جنگ تھی جو ہم نے دہشت گردوں کے خلاف لڑی۔ بلاشبہ 20 سال ایک طویل عرصہ ہے۔

افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کو حیرت ہے کہ افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد ملک میں آگے کیا ہوگا؟ تمام بین الاقوامی سیاسی پنڈت اس بات پر بھی غور کررہے ہیں کہ کہیں افغانستان کا مستقبل بھی ویتنام جیسا تو نہیں ہوگا؟

اگر ہم ویتنام اور افغانستان کے مابین مماثلت کا موازنہ کریں تو ویتنام جنگ ایک پراکسی وار کہلاتی ہے جو چین، روس اور امریکا کے مابین ہوئی۔

دوسری جانب افغانستان میں امریکا کی بظاہر دہشت گردوں کے خلاف لڑی گئی جنگ دراصل ایک نیم پراکسی وار کہی جاسکتی ہے جو امریکا اور خطے کے مسلمان ممالک کے درمیان لڑی گئی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ نظریہ متنازعہ ہو لیکن غور کیجئے کہ ویتنام جنگ نے مشرقِ بعید، بلکہ جنوبی ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ میں بھی سوشلزم اور سوشلسٹ انقلاب کا راستہ روک دیا۔ ویتنام، برما اور انڈونیشیا میں سوشلسٹ انقلابی تحریکیں ابھریں اور بے دردی سے کچل دی گئیں۔

لہٰذا غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد افغانستان اور خطے کی صورتحال واضح ہوجائے گی۔ امریکا نے ویتنام کے گھنے جنگلات، میدانوں اور وادیوں کے علاوہ افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور چٹیل میدانوں میں بھی جنگ کا تجربہ حاصل کر لیا جس کی اسے ایک قیمت بھی چکانی پڑی یعنی ویتنام اور افغانستان میں گوریلا اور نیم گوریلا جنگوں میں فرائض کی انجام دہی کے دوران ہبت سے امریکی فوجی جان کی بازی ہار گئے۔

قطر میں امریکی حکام اور طالبان کے مابین جو مذاکرات ہوئے ان میں امریکا سے مطالبہ کیا گیا کہ باقی ماندہ فوجی ملک سے باہر نکال لے جبکہ طالبان افغانستان کے 50 فیصد سے زائد علاقے پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔

جنوبی ویتنام کو معاہدوں پر دستخط کے مابین باوقار وقفہ حاصل ہوا۔ افغانستان کے وقفے کے دوران طالبان کو یقین ہے کہ جو بھی مخلوط حکومت آئے، انہیں ملک میں مزید استحکام حاصل ہوجائے گا۔

تاہم جنوبی ویتنام کی طرح اگر کابل کی صورتحال مخدوش ہوئی تو لاکھوں کی تعداد میں افغانستان سے مایوس پناہ گزین ہجرت پر مجبور ہوں گے۔ اس میں وہ افغان شہری بھی شامل ہوں گے جو موت کے خوف کے باعث امریکا اور سابقہ افغان حکومتوں اور فوج کے احکامات ماننے پر مجبور تھے اور وہ شہری جو کسی مسلمان ریاست میں نہیں رہنا چاہتے جبکہ بہت سے جنوبی ویتنام کے باشندے ایک کمیونسٹ ریاست میں رہائش پر مجبور ہوئے۔

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ امریکا نے اپنی فوج افغانستان میں خواتین کی حفاظت یا بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے نہیں بھیجی تھی کیونکہ جب کبھی طالبان نے کسی گرلز اسکول کو تباہ کیا یا خواتین کے حقوق پامال ہوئے، سوشل میڈیا صارفین امریکا کو اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کا کہتے نظر آئے۔

غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد کیا ہوگا؟ یہ اہلِ نظر کے سمجھنے کا سب سے اہم نکتہ ہے کیونکہ اس سے افغانستان میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا اور اقتدار زیادہ تر طالبان کے ہاتھوں میں ہوگا۔ لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ طالبان کسی گروہ یا کسی نظریاتی طاقت کا نام نہیں ہے کیونکہ خود طالبان مختلف گروہوں میں منقسم ہیں جبکہ زبان، نسل اور پیشے کا فرق شمال اور جنوب کا بڑا فرق ہے۔ موجودہ افغان حکومت میں اشرف غنی جنوب کے خطے سے پشتون بیلٹ سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ عبداللہ عبداللہ شمالی خطے سے فارسی بیلٹ سے منسلک ہیں اور دونوں رہنماؤں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایسی صورتحال میں افغان طالبان کا یہ مشہور مقولہ قابلِ غور ہے کہ امریکا کے پاس گھڑی ہے لیکن وقت ہمارے پاس ہے۔

توجہ طلب بات یہ ہے کہ اگر افغان طالبان غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد امریکا، یورپی یونین، روس، پاکستان، چین اور بھارت سے مدد لے کر اپنی توجہ انفرااسٹرکچر، اسکولوں اور ہسپتالوں کی بحالی اور تعمیر پر مرکوز کرتے ہیں تو یہ ایک عظیم خدمت ہوگی۔ کوئی بھی یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرسکتا کہ افغانستان جنوبی ایشیاء سمیت پوری دنیا میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں ہرملک سے پیچھے ہے۔

انخلاء کا عمل مکمل ہوجانے پر طالبان پر ایک حقیقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کا اعتماد بحال کریں، پالیسی سازی کریں، جدید دور کی ضروریات کو مدِ نظر رکھیں اور ریاستی امور میں ہر طبقۂ فکر کو بھرپور نمائندگی دیں۔آئین کا احترام ضروری ہے۔ افغانستان کو جہادی گروہوں کے اقتدار کی بجائے عوامی حکومت کی ضرورت ہے جو عوامی خواہشات کو سمجھ سکے، امن قائم کرے اور شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کی جائیں۔

دنیا بھر کے 10 غریب ترین ممالک میں شامل افغانستان میں ایک شخص کی سالانہ آمدنی صرف 600 ڈالر ہے جو تقریباً 250 روپے روزانہ بنتی ہے۔ امریکا نے جو اقدامات اٹھائے یعنی نیم جمہوری حکومت کا قیام، انتخابات، افغان فوجیوں اور سویلین افسران کی تربیت اور مالی و عسکری امداد وغیرہ، ان سب میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ اب افغانستان کے عوام اور سیاسی و مذہبی رہنماؤں کو ملک کی تعمیر وترقی کیلئے اپنا بھرپور اور مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ 

Related Posts