کراچی: جامعہ کراچی کی قائم مقام انتظامیہ کئی ماہ قبل تیار کردہ پلان کے باوجود سائنس انجینئرنگ ٹیکنالوجی میں جدید رحجانات پر مشتمل پہلی بین الاقوامی کانفرنس کرانے میں یکسر ناکام ہو گئی جس کی وجہ سے جامعہ کیلئے سود مند پہلی بین الاقوامی کانفرنس دو ماہ قبل ہی منسوخ کر کے شرکاء کی رجسٹریشن اور مالی تعاون کرنے والوں کو پیسے واپس کرنے کیلئے خط لکھ دیا۔
جامعہ کراچی کے سابق قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود عراقی کے دور میں جامعہ کراچی کی نیک نامی، تعلیمی کارکردگی، اہمیت اور تعلیمی برتری کو ثابت کرنے کیلئے سائنس،انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میں جدید رحجانات کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کی تیاری کی گئی تھی جس کیلئے بین الاقوامی سطح کے انتظامات کیئے جا رہے تھے جس کے لیئے دلچسپی رکھنے والوں سے رجسٹریشن فیس اور کانفرنس کیلئے تعاون کرنے والی کمپنیوں سے پیسے بھی لے لیئے گئے تھے۔
اس بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کرنے کیلئے قائم کردہ کمیٹی میں موجودہ انتظامیہ کے ہی افسران و ملازمین شامل تھے۔ جن میں اس پروگرام کی پیٹرن انچیف وائس چانسلر، پیٹرن ڈین سائنس ڈاکٹر ناصرہ خاتون، چیف آ رگنائزر ڈاکٹر مقصود علی انصاری، کانفرنس سیکرٹری ڈاکٹر عمران اے صدیقی اور کانفرنس کمیٹی میں ڈاکٹر ثمینہ بانو، ڈاکٹر ارم بشیر، ڈاکٹر ارم ظاہر، ڈاکٹر شگفتہ اشتیاق اور ڈاکٹر شاہینہ ناز کے علاوہ اس کے رابطہ کار ضیاء الحق تھے۔
جامعہ کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد بین الاقوامی مندوبین کی جانب سے تحفظات کے اظہار کے بغیر ہی جامعہ کراچی نے دو ماہ قبل اس کانفرنس کی منسوخی کا اعلان کر دیا ہے، جس کے لیئے کانفرنس کے چیف آرگنائزر و رجسٹرار ڈاکٹر مقصود علی انصاری نے 16 مئی کو ایک خط لکھ کر کانفرنس میں رجسٹریشن حاصل کرنے والوں اور مالی تعاون کرنے والی کمپنیوں سمیت مندوبین کو کہا ہے کہ کانفرنس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی گئی ہے۔
جولائی کے آخری ہفتے میں منعقد ہونے والی اس بین الاقوامی کانفرنس کو ملتوی کرنے کیلئے انتظامیہ کی جانب سے یہ عذر پیش کیا گیا ہے کہ جامعہ میں موجودہ سیکیورٹی صورتحال اس قابل نہیں کہ بین الاقوامی سطح کے مندوبین اور ملک بھر سے آنے والے مہمانوں کی سیکورٹی کا رسک لیا جا سکے۔
سائنس، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے موجودہ رجحانات”کے موضوع پر منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں یورپ، امریکا، کینیڈا، مڈل ایسٹ سمیت دیگر مقامات سے مندوبین نے شرکت کرنی تھی۔ جس میں اساتذہ، طلبہ اور غیر تدریسی عمال کی علیحدہ علیحدہ رجسٹریشن اور فیس مقرر کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں:جامعہ کراچی میں سخت سیکورٹی کے باوجود مسلح ڈاکوؤں نے طالب علم کو لوٹ لیا