الزامات اور تردید

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر قاتلانہ حملے نے ملک میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کردی ہے، خاص طور پر پی ٹی آئی کے سربراہ کی جانب سے الزامات اور حکومت اور آئی ایس پی آر کی تردید کے بعدکی صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔

ایک مہلک ہتھیارکے حملے میں بچ جانے کے بعد اپنے پہلے عوامی بیان میں، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک سینئر انٹیلی جنس اہلکار کو ان کے قتل کی کوشش کا ذمہ دار قرار دیا۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ وہ اس سازش سے باخبر تھے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ انھیں جمعرات سے پہلے بھی خبردار کیا گیا تھا کہ حملہ جلد ہوسکتا ہے، لیکن انھیں یقین کرنا مشکل ہو گیا تھا، یہ سوچ کر کہ سازش کرنے والے درحقیقت اپنے منصوبے سے گریز نہیں کریں گے۔

یہ بہت سنگین الزامات ہیں۔ ان الزامات کا جواب وفاقی حکومت اور انٹر سروسز پبلک سروسز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے سامنے آیا، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اپنے افسر اور ادارے پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ ”پاکستان کی فوج ایک انتہائی پیشہ ور اور نظم و ضبط کی حامل تنظیم ہونے پر فخر کرتی ہے، ادارے کا ایک مضبوط اور انتہائی موثر اندرونی احتسابی نظام ہے۔ اگر مفاد پرستوں کی جانب سے فضول الزامات کے ذریعے اس کے عہدے داروں کی عزت، حفاظت اور وقار کو داغدار کیا جا رہا ہے تو یہ ادارہ اپنے افسروں اور سپاہیوں کی حفاظت کرے گا۔

دوسری جانب پنجاب پولیس عمران خان کی جانب سے نامزد کیے گئے ’تین افراد‘ کے خلاف مقدمہ درج کرنے میں ناکام رہی ہے۔ منظر نامے میں پنجاب حکومت کا کردار بھی سوالیہ نشان ہے، کیا وجوہات ہیں کہ پرویز الٰہی کی حکومت ایف آئی آر کے اندراج سے گریز کر رہی ہے؟

مرکزی ملزم کی لیک ہونے والی ’اعترافیہ‘ ویڈیوز، ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر اور مرکز اور پنجاب کے متضاد بیانات نے کنفیوژن میں اضافہ کیا ہے اور سازشی نظریات کو ہوا دی ہے۔قوم جواب کی منتظر ہے۔ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ان عوامل کے پیچھے کون ہے اور اس کوشش کے پیچھے کیا محرکات ہیں۔

Related Posts