پاکستان کے مختلف شہروں بالخصوص اسلام آباد، کراچی اور دیگر بڑے شہروں کیلئے اربن فلڈنگ کا خدشہ سر اٹھا رہا ہے جو شہری انتظامیہ کیلئے کسی بیداری کی کال سے کم نہیں۔
ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے شدید بارشوں کی پیشگوئی کرتے ہوئے شہری علاقوں میں سیلاب (اربن فلڈنگ) کا خدشہ ظاہر کیا ہے جبکہ پری مون سون بارشیں پہلے ہی تباہی مچا رہی ہیں۔
خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں پری مون سون بارشوں کے باعث سیلاب، چھتیں گرنے کے واقعات، فصلوں اور املاک کی تباہی جیسے واقعات رونما ہوئے۔
چھتیں گرنے اور کرنٹ لگنے سمیت مختلف واقعات میں متعدد افراد جاں بحق اور بہت سے زخمی ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ کئی علاقوں میں بارش کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ سبی، کوہلو، زیارت، کوئٹہ، چمن، ہرنائی، لورا لائی، شیرانی، موسیٰ خیل، بارکھان اور ژوب میں موسلا دھار بارش، گرج چمک اور تیز ہواؤں کی اطلاعات ہیں۔
قبل ازیں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) ایک بیان جاری کرچکی ہے جس میں خیبر پختونخوا، گلیات، کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ سے خبردار کیا گیا تھا۔
وفاقی وزیرِ موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں طوفانی بارشوں کے نتیجے میں ملک کے بڑے حصوں کو سیلاب کا سامنا ہوسکتا ہے۔
شیری رحمان کا کہنا ہے کہ کراچی، لاہور، ملتان، پشاور، اسلام آباد اور دیگر برے شہروں میں اربن فلڈنگ کا واضح خطرہ ہے۔ انہوں نے متعلقہ محکموں کو ممکنہ آفات سے نمٹنے کیلئے اقدامات کی ہدایت بھی کی۔
ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ کراچی میں موسلا دھار بارش کے باعث کئی کاروباری علاقے پانی میں ڈوب گئے۔ سڑکوں نے تالاب کا روپ دھار لیا۔ اربن فلڈنگ کے خلاف انتظامات ناقص رہے۔
عوام کو بھاری مالی نقصان الگ اٹھانا پڑا اور جانوں کا نقصان الگ برداشت کرنا پڑا جس پر صوبائی و شہری حکومتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتی نظر آئیں۔
حالیہ بارشوں میں بھی کراچی کے تاجروں کی دکانیں ڈوب گئی تھیں۔ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ایسے حالات سے محفوظ رکھے لیکن اگر وہی تاریخ دہرائی گئی تو تاجروں کیلئے اس خسارے سے نکلنا بہت مشکل ہوگا۔
توانائی بچانے کے پروگرام کے تحت کاروباری اوقات پہلے ہی کم کردئیے گئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے سندھ نے بھی انسانی جانوں کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے الرٹ جاری کیا تاہم سندھ حکومت کی ماضی کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔
اگر سندھ حکومت کی ماضی قریب میں بارشوں کے خلاف حکمتِ عملی اور اربن فلڈنگ کے خلاف انتظامات کا جائزہ لیا جائے تو حالات کسی بھی خطرناک صورتحال سے نمٹنے کیلئے عملی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔