وطن عزیز میں مسائل کے انبار کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی نئی لہر نے اہل وطن اور حکمرانوں کیلئے ایک نیا چیلنج کھڑا کردیا ہے۔ ایک طرف معیشت سنبھلنے کو نہیں آرہی اور دوسری طرف دہشت گردی کی یکے بعد دیگرے وارداتیں ملک میں مزید مشکلات میں دگرگوں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔
بنوں میں سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ پر دہشت گردوں کا حملہ اور کئی اہلکاروں کو یرغمال بنانا ناصرف ملکی اعتبار سے فکر آمیز بات ہے بلکہ بین الاقوامی طاقتیں بھی دہشت گردی کی ان وارداتوں کا بخوبی جائزہ لے رہی ہیں۔
بدھ کی ہی بات ہے کہ امریکی وائٹ ہاؤس کے ترجمان نیڈ پرائس نے ناصرف پاکستان سے ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ پاکستان کو امریکا کی مدد کی پیشکش بھی کی ہے۔بنوں میں حالیہ دہشت گردی کا واقعہ ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی مدد اور تحفظ کے سبب ہی ممکن ہوا۔
افغانستان کے معروضی حالات میں سمجھنا کوئی دشوار نہ ہوگا کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک جان دو قالب سمجھے جاتے ہیں جس کو سمجھنا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ طالبان نے افغانستان کی حکمرانی سنبھالتے ہی 800 ٹی ٹی پی کے قیدیوں کو رہا کردیا تھا ، باوجود اس کے کہ پاکستان ان ٹی ٹی پی دہشت گردوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کرتا رہا۔
قبائلی ثقافتی اور خونی رشتوں کی ہم آہنگی کی وجہ سے طالبان کو ٹی ٹی پی کیخلاف ہونے سے روکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان طاقتوں نے سوویت یونین (متحدہ روس) کے خلاف اور پھر نیٹو فورسز کے خلاف بھی کام کیا۔ ان کے آپس میں تعلقات، ملتے جلتے نظریات اور روابط ہیں جبکہ افغانستان پر قابض موجودہ طالبان حکومت ان باتوں پر اپنا ایک سرکاری مؤقف رکھتی ہے۔
بلاشبہ افغان طالبان آج کسی بھی دہشت گرد گروہ کی سپورٹ سے انکاری ہیں تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان میں دہشت گردی اور دہشت گرد گروہ آج بھی موجود ہیں اور یہ تمام حقائق اس ناقابلِ تردید تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو روکنے سے اجتناب کررہی ہے۔اس کے علاوہ دیگر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ افغان طالبان کے دانستہ اور غیر دانستہ وابستگی ناصرف پاکستان کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے بلکہ دیگر ممالک کیلئے بھی تشویش کا باعث ہے۔
اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو جن مجاہدین کی پاکستان نے آبیاری کی انہوں نے بعد میں اپنے نظریات کو بدلتے ہوئے اتحادی فورسز کے خلاف لڑائی اور دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کردیں اور آہستہ آہستہ ان طالبان نے وہ قوت حاصل کرلی کہ پاکستان کے احسانات کو درگزر بھی کیا اور پاکستان کی ضرورت بھی کم محسوس کی۔
یہاں یقیناً پاکستان کو اپنی اُس وقت کی خارجہ پالیسی کو جان کر کوئی زیادہ خوشی نہیں ہوگی کیونکہ اب جو کچھ ہورہا ہے اس کیلئے صرف اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ: یہ جو آوارگی شبنم ہے۔اس میں کچھ جرم آفتاب بھی ہے ۔
امریکا جب اپنے اہداف حاصل کرنے اور سویت یونین کو شکست دینے کے بعد افغانستان سے ہاتھ جھاڑ کر واپس چلا گیا اور مجاہدین کوبعد میں دہشت گرد گردانے گئے ان کی بحالی یا قومی دھارے میں لانے کیلئے کچھ نہیں کیا اور انہیں اسی طرح لڑتا جھگڑتا اور دہشت گردی کرتا چھوڑ کر واپسی کی راہ لی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گردوں کے مختلف گروہ نے اپنے طور پر آپریٹ کرنا شروع کیا جس کے پیچھے ہمارے دشمن ممالک کا ہاتھ بھی شامل ہے۔ ٹی ٹی پی طالبان کی سپورٹ کے بغیر انتہائی کمزور تھی اور اس قسم کی دہشت گردی نہیں کرسکتی۔
افغانستان میں عوام کے حقوق پر بھی طالبان حکومت کا کنٹرول کافی مشکلات پیدا کر رہا ہے جس پر بین الاقوامی برادری اور پاکستان نے بھی ہمسایہ ملک کو سمجھایا تاہم افغانستان سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں فائرنگ کے واقعات رونما ہونا شروع ہوگئے یہاں تک کہ پاکستان کو کافی جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔
یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ پاکستانی حکمران طالبان کے آنے پر خوشی کے شادیانے بجاتے رہے لیکن طالبان سے مضبوط اور مربوط رشتوں کو بڑھاوا نہ دے سکے ، اس کو اپنی کمزوری نہ سمجھا جائے تو کیا سمجھا جائے۔
پاکستان نے ٹی ٹی پی سے سیزفائر کا معاہدہ کیا تھا جس کے تحت کچھ عرصے تک تو امن رہا تاہم اب وہ معاہدہ ٹوٹ چکا ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر آچکی ہے اور اب دہشت گردوں کے حملوں میں کافی شدت بھی آ گئی ہے جو تشویشناک ہے۔ گزشتہ برس اقوامِ متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل نے جو قرارداد منظور کی اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے ۔
یہ گزشتہ برس اگست میں ہوا اور پھر ستمبر میں بھی یہ مطالبہ دہرایا گیا کہ طالبان میں کسی بھی دہشت گرد گروہ کے نقوشِ قدم نہیں ہونے چاہئیں جن میں نصف درجن سے زیادہ دہشت گرد گروہ شامل ہیں اور عالمی برادری نے افغانستان کی طالبان حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ عوام بالخصوص خواتین اور بچوں کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کریں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو عالمی برادری افغانستان سے کسی بھی قسم کا تعاون نہیں کرے گی۔
راقم الحروف سمیت مختلف تجزیہ کاروں نے یہ رائے دی تھی کہ ٹی ٹی پی ایک بار پھر فعال ہوجائے گی اور دہشت گردی بڑھے گی اور پھر یہی ہوا کہ کچھ وقت کیلئے تو ٹی ٹی پی خاموش رہی اور پھر انہوں نے پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حملے شروع کردئیے اور ہمارے فوجی جوانوں کونشانہ بنایا جس کا وہ پہلے ہی اعلان کرچکے تھے۔
اب ٹی ٹی پی نے سی ٹی ڈی کو بھی ٹارگٹ کیا ہے اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز بھی ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو ناکام بنانے کیلئے پر عزم ہیں اور پہلے بھی پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف بڑی کارروائیاں کی تھیں تاکہ پورے خطے سے دہشت گردی کا صفایا کردیا جائے۔
اب چونکہ پاکستان افغان طالبان کی حکومت سے سفارتی مراسم بھی قائم کیے ہوئے ہے اور جب ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لینا ہوتا ہے تو اس کے دوران گیہوں کے ساتھ ساتھ کچھ گھن بھی پس جاتا ہے اور پاکستان کے ایسے اقدامات طالبان حکومت کو پسند نہیں آتے بلاشبہ یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے تاہم اس سے پاکستان کو مکمل سمجھداری کے ساتھ نمٹنا ہے لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام پیدا ہو اور اگر سیاست دانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو دہشت گردی کیخلاف کارروائی نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوسکتی ہے۔