پہاڑوں سے بلند عزائم رکھنے والے کوہ پیما شہروز کاشف کی راہ میں فنڈ کی کمی رکاوٹ

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!

پاکستانی کوہ پیما شہروز کاشف کو دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے کی دوڑ میں صفر سے بھی کم درجۂ حرارت اور تیز یخ بستہ ہواؤں کا سامنا تو ہے ہی، لیکن ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج رقم کا بندوبست کرنا ہے۔

21 سالہ کاشف کا مقصد ہے کہ وہ اس سال 8,000 میٹر (26,247 فٹ) سے بلند ہر چوٹی کو سر کرنے والے کم عمر ترین شخص بن جائیں۔ یہ سب پہاڑی چوٹیاں ایشیا میں اور ان میں سے پانچ پاکستان میں واقع ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

کراچی میں پہلی بار استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ری سائیکل کرکے سڑک تعمیر کردی گئی

العربیہ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایورسٹ کی چوٹی سر کرنے کے لیے کاشف نے تقریباً $60,000 کی رقم خرچ کی، اور باقی تمام 14 “سپر یا بلندترین چوٹیوں” کو سر کرنے پر لاکھوں ڈالر خرچہ آ سکتا ہے اور پاکستان جیسے معاشی بحران کے شکار ملک میں یہ فنڈز جمع کرنا خاص طور پر ایک مشکل کام ہے۔

“میرے والد نے میری گاڑی اور ایک قطعۂ اراضی فروخت کر دیا۔ اس طرح میں نے ایورسٹ سر کی۔” کاشف نے لاہور میں اپنے گھر میں اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا۔ لاہور سطح سمندر سے کم بلندی پر واقع ہے جہاں شہروز کاشف پیدا ہوئے۔

اب تک صرف 50 کے قریب افراد دنیا کی تمام بلندترین چوٹیوں کو سر کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں جن میں نیپال کے منگما گائیبو ڈیوڈ شرپا کم عمر ترین ہیں۔ انہوں نے 30 سال کی عمر تک یہ تمام چوٹیاں سر کر لی تھیں۔

اس ریکارڈ کو توڑنے کے لیے کاشف کو مزید تین چوٹیاں سر کرنی ہیں: چین کی شیشاپنگما، اور نیپال کی چو اویو اور مناسلو۔ 2021ء میں ایک نئی اور زیادہ بلند چوٹی کی سرکاری طور پر تصدیق ہونے کے بعد، ان میں سے مؤخر الذکر چوٹی کو دوبارہ سر کرنا ہو گا۔

کاشف کو ایک 22 سالہ برطانوی-ہسپانوی نژاد کوہ پیما، ایڈریانا براؤن لی سے سخت مقابلہ درپیش ہے۔ وہ بھی 8000 میٹر سے زیادہ بلند تمام چوٹیوں کو سر کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں اور کاشف سے زیادہ پیچھے نہیں ہیں۔

کاشف نے براؤن لی – دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K2 کو سر کرنے والی سب سے کم عمر خاتون – کے بارے میں کہا کہ وہ دونوں گویا ایک ہی مقام پر ہیں۔

لیکن براؤن لی – جو 8000 میٹر تک کی دس چوٹیاں سر کر چکی ہیں – کے برعکس کاشف کو بین الاقوامی سپانسرشپ حاصل نہیں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ انہیں پاکستان میں بھی رقم کے بندوبست کے لئے مشکلات جھیلنا پڑتی ہیں۔

براؤن لی کو بھی مناسلو چوٹی کو دوبارہ سر کرنا ہو گا جو اس چوٹی کو سر کرنے کی ان کی تیسری کوشش ہو گی۔

“میرے خیال میں وہ انتظار کر رہی ہیں کہ دراصل میں یہ کر لوں۔” کاشف نے ہنستے ہوئے کہا۔

کاشف کو سب سے پہلے 11 سال کی عمر میں کوہ پیمائی کا شوق ہوا جب زیادہ تر لڑکے کرکٹ میں مہارت حاصل کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔

اس کی بجائے انہوں نے جنوبی پاکستان میں کوہ ہمالیہ کی 3,885 میٹر بلند چوٹی، مکرا، سر کی۔

تب سے انہوں نے مسلسل کئی ریکارڈز قائم کیے ہیں جن کا مجموعی طور پر ذکر کرنے کے لیے ان کے ٹویٹر بائیو میں جگہ کم پڑ جاتی ہے۔

کاشف کے ٹو اور دنیا کی دونوں بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے والے کم عمر ترین شخص ہیں۔

27 جون 2023 کو لی گئی اس تصویر میں کوہ پیما شہروز کاشف لاہور میں اپنے گھر کے اندر اے ایف پی کے ساتھ انٹرویو کے بعد فون پر اپنی تصویر دکھا رہے ہیں، جو انہوں نے اپنی ایک مہم کے دوران کھینچی تھی۔ (اے ایف پی)

وہ پاکستان کی چوٹی براڈ کو بھی سر کرنے والے کم عمر ترین شخص ہیں، جو دنیا کی 12ویں بلند ترین چوٹی ہے اور ان کے لیے آٹھ ہزار میٹر بلندی والی یہ پہلی چوٹی ہے- اس کارنامے پر انہیں “براڈ بوائے” کے خطاب کا اعزاز حاصل ہوا۔

“یہ صرف پہاڑوں پر چڑھنے کی بات نہیں ہے۔ یہ اس توانائی کی بات ہے جو آپ پہاڑوں سے جذب کرتے ہیں،‘‘ کاشف نے کہا۔”ہر پہاڑ چوٹی کی اپنی ایک خوبصورتی اور کشش ہوتی ہے، ایک الگ اورا (حالہ) ہوتا ہے۔۔۔ خطرے، مہم، اور خوشی کا۔

آٹھ ہزار میٹر کی بلندی والی پہاڑی چوٹیوں پر اپنے نام کی یادگاری تختیاں نصب کرنے کے شوق کے ساتھ ساتھ کاشف اپنے مقصد میں حائل خطرات سے بھی واقف ہیں۔

انہوں نے کہا، “یہ لوگ یہاں ایک ہی صلاحیت، جوش وجذبے، عزم اور ایک ہی جیسے صبر واستقامت کے ساتھ تھے (میری طرح)”۔ کاشف کا خطرناک ترین سفر جولائی 2022ء میں دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت کے لیے تھا۔

وہ اور ان کے کوہ پیما ساتھی، فضل علی چوٹی سر کرنے کے بعد خراب موسم میں گم ہو گئے اور جلد ہی ان کے پاس آکسیجن، خوراک اور پانی کا ذخیرہ ختم ہو گیا۔ کاشف نے کہا، ’’میں سراب اور خواب وخیال کا شکار ہونے لگا۔ “میرا دماغ کام کر رہا تھا (لیکن) باقی جسم بالکل بے حس تھا۔”

جب کاشف آرام (نیند) سے بیدار ہوئے تو انہیں اپنے زندہ ہونے پر حیرت ہوئی، اور انہوں نے اپنی بقا (کی جنگ لڑنے) کا عزم کیا۔ چھ گھنٹے کی کوہ پیمائی کے بعد، یہ جوڑا پہاڑ کے بیس کیمپوں میں سے ایک تک پہنچ گیا۔”جس چیز سے میں سب سے زیادہ ڈرتا تھا وہ یہ ہے کہ میں یہ جانے بغیر مرنا نہیں چاہتا کہ میرا جسم کیا کچھ کرنے کے قابل ہے۔

Related Posts