سابق صدرِ پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف: ایوانِ اقتدار سے سزائے موت تک

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سابق صدرِ پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف: ایوانِ اقتدار سے سزائے موت تک
سابق صدرِ پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف: ایوانِ اقتدار سے سزائے موت تک

سابق صدرِ پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف نے آرمی چیف کی حیثیت سے پاکستان کی تاریخ میں وہ کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں جو ان سے قبل کسی صدرِ پاکستان یا فوجی جرنیل اور لاء ایڈمنسٹریٹر کے حصے میں نہ آسکے۔

جنرل (ر) پرویز مشرف قیامِ پاکستان سے قبل 11 اگست 1943ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔20 جون 2001ء کوپاکستان کے 10ویں صدر بنے جبکہ ان کا دورِ اقتدار18 اگست 2008ء تک قائم رہا۔

نواز شریف اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو ملک میں 3 بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب ملا جبکہ آرمی چیف جنرل (ر)پرویز مشرف نے انہیں 12 اکتوبر 1999ء میں عہدے سے ہٹا کر چیف ایگزیکٹو آف پاکستان کا عہدہ اختیار کر لیا جو 20 جون 2001ء کی صدارت پر منتج ہوا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق صدر اور موجودہ تاحیات قائد نواز شریف جنرل (ر) پرویز مشرف کو آج بھی پسند نہیں کرتے اور انہیں فوجی ڈکٹیٹر کے خطابات سے یاد کرتے ہیں جبکہ اس کی وجوہات سن 1999ء کی تاریخ کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوسکتی ہیں۔

سن 1999ء میں 12 اکتوبر وہ دن تھا جب اس وقت کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو معطل کرکے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ جنرل خواجہ ضیاء الدین کو نیا آرمی مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔

آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف اس وقت سری لنکا کے سرکاری دورے پر تھے اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے ان کی غیر موجودگی میں انہیں عہدے سے معطل کرنے کی سنگین غلطی کی جس کا خمیازہ انہیں وزارتِ عظمیٰ سے محرومی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

آرمی چیف کی معزولی اور فوج کی بغاوت

پاک فوج بلا شبہ جمہوری حکومتوں کے ماتحت کام کرتی ہے۔ آرمی چیف بھی وزیرِ اعظم کو سلیوٹ کرتا دکھائی دیتا ہے، تاہم فوج کا ادارہ کوئی عام ادارہ نہیں جس پر جمہوری حکومتیں من مانے فیصلے مسلط کرسکیں، اس لیے وزرائے اعظم کو احتیاط کادامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔

سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر برطرف کیا جس پر فوج کے اعلیٰ افسران بھڑک اٹھے اور اندرونِ خانہ آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کی حمایت کی۔

آرمی چیف کی حیثیت سے جنرل (ر) پرویز مشرف سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو پسند نہیں کرتے تھے، جبکہ نواز شریف کی طرف سے برطرفی کا فیصلہ آنے کے بعد ان کے دورِ اقتدار کو ختم کرنے کا زبردست بہانہ ہاتھ آگیا۔

جنرل (ر) پرویز مشرف نے نیک کام سمجھتے ہوئے میاں نواز شریف سے ان کی کرسی چھین لی اور آرمی چیف کو ہٹانے پر ان کے خلاف ایک مقدمہ بھی قائم کیا۔

آئینِ پاکستان کی خلاف ورزیاں

آرمی چیف کی حیثیت سے جنرل (ر) پرویز مشرف وزیرِ اعظم کے ماتحت کام کرنے کے پابند تھے لیکن ہٹائے جانے کے فیصلے کے خلاف جا کر انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی۔ آئین کی دوسری خلاف ورزی ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ اور آئین کو معطل کرنا تھا۔

آئینِ پاکستان کو معطل کرنے کی سزا، سزائے موت ہے تاہم اگر جنرل (ر) پرویز مشرف کے معروضی حالات کا جائزہ لیا جائے تو آئین کو معطل نہ کرنے سے ان کی اقتدار میں آمد پر قدغن لگائی جاسکتی تھی۔

بہرحال، جنرل (ر) پرویز مشرف نے عوام سے وعدہ کیا کہ 3 سال کے اندر اند ملک میں الیکشن کروائے جائیں گے، تاہم یہ وعدہ وفا نہ ہوسکا اور سن 2001ء میں الیکشن کی بجائے جنرل (ر) پرویز مشرف نے چیف ایگزیکٹو آف پاکستان سے ایک قدم آگے بڑھ کر صدارت سنبھالی۔

سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی

آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے مئی 2000ء میں دئیے گئے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ سپریم کورٹ نے اکتوبر 2002ء تک انتخابات کا حکم جاری کیا جبکہ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے اس کی حقیقی پیروی نہیں کی۔

پاک آرمی کا کوئی بھی آرمی چیف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی اس وقت تک نہیں کرتا جب تک وہ اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ نہ کر لے، جبکہ جنرل مشرف اس منزل سے گزر چکے تھے، اس لیے انہوں نے انتخابات کی بجائے ریفرنڈم کا راستہ چنا۔

آج سے ٹھیک 18 سال قبل یعنی 30 اپریل 2002ء کو جنرل پرویز مشرف نے صدارتی ریفرنڈم کروایا جس میں 98 فیصد عوام نے آئندہ 5 سال کیلئے جنرل (ر) پرویز مشرف کو صدرِ پاکستان منتخب کیا۔ سیاسی جماعتیں اس کے خلاف تھیں، لیکن بائیکاٹ کے سوا کچھ نہ کرسکیں۔

عام انتخابات اور ق لیگ کی انٹری

آگے چل کر سن 2002ء میں اکتوبر کے مہینے میں جنرل (ر) مشرف نے عوام سے کیا گیا انتخابات کا وعدہ پورا کردیا جس میں مسلم لیگ (ق) نے نیشنل اسمبلی کی زیادہ تر سیٹیں جیت لیں، جو اس سے قبل کبھی ان کے حصے میں نہ آئی تھیں۔

اگلے سال جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایم ایم اے سے وردی اتارنے کا معاہدہ کیا کیونکہ زیادہ تر سیاسی جماعتیں باوردی صدر کے خلاف تھیں، اس لیے جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا کہ میں دسمبر 2004ء تک وردی اتار دوں گا۔

سترہویں آئینی ترمیم اور باوردی صدر

صدرِ پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف نے وردی اتارنے کا وعدہ 2004ءمیں پورا کرنے کی بجائے ق لیگ کی مدد سے 17ویں آئینی ترمیم منظور کروائی۔ یہ آئینی ترمیم کسی بھی آرمی چیف کو وردی میں رہتے ہوئے صدارت کا عہدہ دینے کا قانونی جواز فراہم کرتی ہے۔

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف 2007ء میں وطن واپس آنا چاہتے تھے لیکن جنرل (ر) مشرف نے انہیں کافی دیر جہاز میں روکنے کے بعد پاکستان سے سعودی عرب کی راہ دکھا دی جس پر سیاسی رہنما ایک طویل عرصے تک شدید تنقید کرتے رہے۔

آئین کی دوبارہ معطلی اور صدارت سے استعفیٰ

نومبر 2007ء میں جنرل (ر) مشرف نے عدلیہ کی آزادی ختم کردی اور آئین ایک بار پھر معطل کردیا۔29 نومبر کو انہوں نے صدر کا حلف بھی اٹھایا لیکن صدارت کے اگلے 5 سال مکمل کرنے میں ناکام رہے کیونکہ 28 نومبر کو وہ آرمی چیف کے عہدے سے سبکدوش ہوچکے تھے۔

سن 2008ء میں 18 اگست کے روز قوم سے خطاب کرتے ہوئے صدر جنرل (ر) مشرف نے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔ آئین کے مطابق اس وقت کے چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو ملک کے عبوری صدر بن گئے۔

آصف علی زرداری نے عام انتخابات 2008ء میں کامیاب ہونے کے بعد ملک کے نئے صدر کا عہدہ سنبھالا جبکہ جنرل پرویز مشرف صدر کا عہدہ چھوڑنے کے کچھ ہی عرصے بعد برطانیہ چلے گئے۔

غیر آئینی و متنازعہ فیصلے

جنرل پرویز مشرف نے آئی ایم ایف اور امریکا سے تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کیا جس میں پاکستان کےمفادات کا وہ رخ سامنے آیا جسے کبھی پاکستانی خارجہ پالیسی کا حصہ نہیں سمجھا گیا تھا۔

مشرف کے غیر آئینی اور متنازعہ فیصلوں میں حدود آرڈیننس ترامیم، لال مسجد پر فوجی آپریشن، نواب اکبر بگٹی کا قتل، قومی سائنسدان عبدالقدیر خان کو نظر بند کرنا اور عافیہ صدیقی سمیت سینکڑوں پاکستانی افراد کو امریکا کے حوالے کرنا شامل ہے۔

سابق صدر جنرل (ر) پرویز پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے ازلی دشمن اسرائیل سے درِ پردہ ملکی روابط قائم کیے ہوئے تھے اور بھارت سے بھی دوستی اور ثقافتی روابط موجود تھے۔ اس کے علاوہ میڈیا کو جو آزادی مشرف کے دور میں ملی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔

سزائے موت کا متنازعہ فیصلہ

جنرل مشرف کی آئین شکنی پر بنائی گئی خصوصی عدالت جس کے سربراہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ تھے، انہوں نے غداری کے الزامات کے تحت 17 دسمبر 2019ء کو سابق صدرِ پاکستان کو سزائے موت سنادی۔

یہ ملکی تاریخ کا اتنا متنازعہ فیصلہ تھا کہ اس پر پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ سمیت ملک کی سیاسی و سماجی شخصیات کی طرف سے بھی شدید ردِ عمل سامنے آیا۔

حالیہ صورتحال یہ ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف جسمانی عارضے کے سبب وطن واپس نہیں آسکے جبکہ ان کے خلاف مقدمات کی سماعت وقفے وقفے سے جاری ہے جبکہ پھانسی کا متنازعہ فیصلہ جنرل مشرف نے پہلے ہی چیلنج کیا ہوا ہے۔ 

Related Posts