مہنگائی کا طوفان لمحہ فکریہ!!!

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں اس وقت چہار سو مہنگائی کا شور برپا ہے اور ہمارے حکمران اور وزراء نہایت آرام سے یہ عذرپیش کردیتے ہیں کہ مہنگائی پوری دنیا کا مسئلہ ہے اور پیٹرول دنیا یا پڑوسی ممالک کی نسبت آج بھی سستا ہے لیکن یہ بتانے کی زحمت نہیں کی جاتی کہ جن ممالک کی آپ مثال پیش کررہے ہیں وہاں مزدور کی کم ازکم یومیہ اجرت اور قوت خرید کیا ہے۔

پیٹرول کی قیمتوں کاتقابلی جائزہ لیا جائے تومتحدہ عرب امارات میں پیٹرول پاکستانی کرنسی میں 117 روپے فی لیٹر دستیاب ہے اور مزدور کی یومیہ اجرت 3ہزار ہے۔سعودی عرب کا جائزہ لیا جائے تو یہاں 107 روپے لیٹر پیٹرول جبکہ مزدور کی یومیہ اجرت 45 سوروپے ہے۔

امریکا میں پیٹرول پاکستانی کرنسی کے مطابق 165 روپے لیٹر ہے اور یہاں مزدوری کی اجرت 10 ہزار، برطانیہ میں پیٹرول 205 روپے اوراجرت 12ہزار، بھارت میں پیٹرول 210 روپے لیٹراوراجرت 2 ہزار جبکہ بنگلہ دیش میں پیٹرول پاکستانی کرنسی میں پیٹرول 175روپے لیٹر اور یومیہ مزدوری 1800 روپے ہے۔

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں پیٹرول کی قیمت 138 روپے سے زائد لیکن مزدور کی اجرت صرف 800 روپے ہے۔عقل یہ بات تسلیم کرنے سے عاری ہے کہ 800 روپے یومیہ کمانے والا مزدور کیونکر 138 روپے لیٹر پیٹرول کے نتیجے میں مہنگائی کادباؤ برداشت کرسکتا ہے اور نتیجتاً کیسے اپنے خاندان کی کفالت کرسکتا ہے اور مہنگائی کا میزانیہ بنایا جائے تواس میں گھر کا کم سےکم کرایہ اگر 10سے 15 ہزار بھی رکھا جائے اور بغیرادویات و علاج معالجے کے صرف راشن کا حساب کیا جائے اور بچوں کی تعلیم بھی نکال دی جائے تو بھی اس 800 روپے اجرت میں گزربسر ناممکن ہے۔

دنیا کے جن ممالک میں بھی لوگوں کی بساط سے زیادہ مہنگائی میں اضافہ ہواورلوگوں کی قوت خرید میں کمی ہو تووہاں دنگے فسادات کے خدشات بڑھ جاتے ہیں اور ہم نے دیکھا کہ ماضی میں افریقی ممالک، جنوبی افریقہ، ارجنٹینا، یونان، زامبیاسمیت دیگر ممالک میں جب مہنگائی کے سبب عدم استحکام پیدا ہوا تو معاشرے میں انتشار نے جنم لیااورفسادات کی صورت اختیار کرلی اور آج پاکستان میں بھی ایک کثیر آبادی میں حالات فاقہ کشی تک پہنچ چکے ہیں اور اگرمہنگائی کا یہ طوفان اسی طرح جاری رہا تو غالب امکان ہے کہ لوگ سڑکوں پر نکل سکتے ہیں جس سے انارکی کی صورتحال کا سامنا بعیدازقیاس نہیں ہے۔

یہ درست ہے کہ پاکستان پر پہلے سے موجود قرضوں کا انبار موجودہ دور حکومت میں پہاڑ بن چکا ہے اور اس پر سود کی ادائیگی کے باعث ہم کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے جال میں پھنس چکے ہیں اور آئی ایم ایف کی جاری میٹنگ میں اب تک عالمی مالیاتی ادارے کو مزیدٹیکس بڑھانے، بجلی اور گیس مہنگی کرنے اور سبسڈی ختم کرنے جیسی سخت شرائط سے روکنے کیلئے تگ و دو کی جارہی ہے کیونکہ اگر بلواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ ہوتا ہے تو لوگ فاقہ کشی کے بعد خودکشیوں کی طرف جاسکتے ہیں۔

ملک کی موجودہ صورتحال کا سیاسی پہلو سے جائزہ لیا جائے تو حکومت وقت کو جس انداز میں اپنی آمدن میں اضافہ کرنا چاہیے تھا مگرحکومت اس میں ناکام رہی اور ہماری ایکسپورٹ کا سلسلہ جمود کا شکار ہے اور حکومت وقت کواقتدار میں آنے سے پہلے ایسا لگتا تھا کہ کرپشن کی مد میں بیرون ممالک میں رکھا گیا 2سو بلین ڈالرشائد باآسانی واپس آجائیگا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد حکومت اس معاملےمیں کسی پیشرفت میں ناکام رہی ہے۔ملک میں انڈسٹری کو پروان نہیں چڑھایا جاسکا اور حکومت ایسی صنعت سازی میں بھی ناکام دکھائی دی جس سے ایکسپورٹ کو بڑھاوادیکر معیشت کو سہارا دیا جاسکے۔

تمام تر حالات اور صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا قطعی غلط نہ ہوگا کہ موجودہ دور حکومت میں انتظامی امور کو درست سمت میں نہ چلانے کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں مہنگائی بڑھ رہی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں لوگوں کی قوت خرید  سے زیادہ مہنگائی بڑھتی ہے وہاں انارکی اور شورش کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں جن سے بچنے کیلئے وہاں ریاستیں اپنے عوام کیلئے مختلف معاشی اصلاحات کو اپناتے ہوئے تنخواہوں میں اضافہ کرتی ہیں تاکہ وہ اپنا گزربسر کرسکیں ۔

مہنگائی میں ہوشرباء اضافے کا ایک عنصر یہ بھی ہے کہ امریکا اب ہمارا ہمدرد نہیں رہا جس کی وجہ سے آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کیلئے ماضی میں روا رکھا جانیوالا نرم رویہ تر ک کردیا ہے اور اس کے ساتھ ہی عالمی مالیاتی ادارے میں کلیدی عہدوں پر براجمان بھارتی نژاد شہری بھی ہمارے لئے مشکلات کاسبب بن رہے ہیں۔

افغانستان کی صورتحال پرڈالر کے بہاؤ کی وجہ سے ڈالر دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور173 کی بلندسطح کو چھو چکا ہے جس سے ادائیگیوں کے توازن میں بھی خلل پیدا ہونا شروع ہوچکا ہے جس سے کمر توڑ مہنگائی بڑھتی جارہی ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا لوگ مہنگائی میں مزید اضافے کے متحمل ہوسکتے ہیں یا نہیں؟۔

غریب عوام کیلئے اس وقت دو وقت کی روٹی کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور اگر مہنگائی میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو یہ ایک نئے طوفان کا پیش خیمہ ہوگا اور ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ کیا ہم ایسی صورتحال کے متحمل ہوسکتے ہیں کہ جب لوگوں کا سمندر سڑکوں پر ہو اور حکومت ان کو کنٹرول کرنے کے قابل نہ رہے۔

حکومت کو اس وقت ایسے ذرائع پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جس میں فوری طور پراپنے اخراجات اور امپورٹ کو کم کریں، ایکسپورٹ کو بڑھائیں اور امراء سے ٹیکس لیکر غریبوں کو ماضی میں راشن کارڈ کی طرز پر ریلیف فراہم کریں بصورت دیگر ملک کیلئے آگے بڑھنا محال ہے۔

حکومت کا یہ فرض ہے کہ جو شخص استطاعت نہ رکھتا ہو اس کی کفالت میں معاونت کار ثابت ہو جیسا کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 38 میں بھی درج ہے اور حکومت کا یہی کام ہے کہ انتظامی معاملات کو ایسے چلایا جائے کہ امراء پر ٹیکس عائد ہوسکے لیکن غریب آدمی کو ٹیکس کے بوجھ تلے نہ دبایا جائے۔

پیٹرول پر لیوی بڑھنے کی وجہ سے اگلے روز تمام اشیاء مہنگی ہوجاتی ہیں جس کا اثر غریب آدمی پر پڑتا ہے اور موٹرسائیکل سواراور پجارووالے کیلئے یکساں نرخ زیادتی کے مترادف ہے۔

موجودہ حالات حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہیں کیونکہ موجودہ صورتحال میں حکومت سے بدظن عوام کو سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مفاد کیلئے استعمال کرکے حکومت کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں۔

Related Posts