نیا میڈیا ریگولیٹر

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حکومت نے تمام موجودہ میڈیا ریگولیشنز کو منسوخ کرنے اور مین اسٹریم اور سوشل میڈیا کو ریگولیٹ اور مانیٹر کرنے کے لیے ایک نیا ادارہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ (PDMA) قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم میڈیا تنظیموں نے میڈیا کو کنٹرول کرنے اور آزاد میڈیا کی آواز کو دبانے کی ایک اور کوشش کے طور پر اس اقدام کو مسترد کر دیا ہے۔

وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ مجوزہ اتھارٹی وقت کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ قوانین اور ڈھانچے میں خامیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کل ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات موبائل فون میں سما چکے ہیں اور انہیں ایک مشترکہ ریگولیٹری اتھارٹی کی ضرورت ہے۔ مقصود قوانین کا مقصد کئی اہم قانون سازیوں کو منسوخ کرنا ہے،جس میں پیمرا آرڈیننس بھی شامل ہے۔

تمام میڈیا تنظیموں نے مجوزہ اتھارٹی کو سختی سے مسترد کردیا ہے اور مجوزہ قانون کو سخت قرار دیا ہے۔ ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا تھا جس میں نافذ کئے گئے قانون کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ ایک واحد مرکزی ادارے کی تشکیل کے ذریعے معاشرے کے تمام طبقات پر براہ راست ریاستی کنٹرول مسلط کیا جارہا ہے۔ اس کا مقصد پریس کی آزادی اور اس کی حقیقت کو نظر انداز کرنا ہے کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا الگ الگ ادارے ہیں۔

ضابطے کا بنیادی مقصد ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا ہے۔ آرڈیننس کے تحت پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا آؤٹ لیٹس کو بھی ملک میں قائم کرنے اور چلانے کے لیے لائسنس کی ضرورت ہوگی۔ اس سارے معاملے کو پریشانی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ یہ اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی کو روک سکتا ہے۔ اس قانون میں ایک میڈیا ٹربیونل کا بھی تصور ہے جو صحافیوں کو تین سال تک قید کی سزا دے سکے گا اور بھاری جرمانے عائد کر سکے گا۔

آزادی اظہار رائے کے حوالے سے پاکستان کا شمار پست ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ میڈیا کو محدود کرنے کے لئے کوئی بھی منفی پیغام بھیجا جائے گا تو جمہوری معاشرے میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ قانون کو پارلیمنٹ میں لایا جائے گا جہاں اس کی شدید مخالفت ہوسکتی ہے، حکومت ان شہریوں کے خلاف غداری کے مقدمات درج کرنے پر بھی غور کر رہی ہے جنہوں نے ریاست مخالف سوشل میڈیا مہم میں حصہ لیا۔

یہ آمرانہ حکومتوں کی نشانی ہے کہ میڈیا کو محدود کریں اور بیانیے کو کنٹرول کریں۔ مجوزہ ادارہ میڈیا پر قابو پانے کی کئی دہائیوں کی کوششوں کا حصہ ہے۔ حکومت کوقانون سازی سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لینا چاہتی ہے، اسے یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ کوئی بھی ایسا قانون منظور نہ ہو جوجمہوری اصولوں اور آئینی حقوق کے لیے نقصان دہ ہو۔

Related Posts