تعلیم کے ساتھ بچوں کی کردارسازی بھی ضروری ہے، پروین راؤ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Along with education, character building of children is also essential, Parveen Rao

تعلیم انسان کی بنیادی ضرورت ہے لیکن آج کے دور میں معیاری تعلیم کا حصول عام عوام کیلئے ایک خواب بن چکا ہے، مہنگی تعلیم اور تعلیمی اخراجات کی سکت نہ رکھنے کے باعث ہزاروں والدین اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے بجائے محنت مزدور کروانے یا گھر بٹھانے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن کراچی کے علاقے تیسر ٹاؤن میں ایک ایسا اسکول ہے جہاں ایک روپیہ فیس کے عوض بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔

ایم ایم نیوز نے عمل دانش اسکول کی روح رواں پروین راؤ سے اس منفرد منصوبے کے حوالے سے جاننے کیلئے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کا احوال نذرقارئین ہے۔

ایم ایم نیوز:عمل دانش اسکول کے قیام کا خیال کب آیا ؟
پروین راؤ : میں نے 1996ء میں یہ اسکول قائم کیا تھا، میرا شوق تھا کہ ایک ایسا اسکول قائم کروں جہاں فیس کی وجہ سے تعلیم سے محروم بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاسکے ۔

ایم ایم نیوز:عمل دانش اسکول کاآغاز کیسے کیا اور عمر کی کیا حد رکھی تھی؟
پروین راؤ : ہم نے اس اسکول کا آغاز سرجانی ٹاؤن میں ایک مکان کو کرائے پر حاصل کرکے کیا تھا،ہمارے اسکول میں داخلہ لینے کے لیے عمر کی کوئی حد نہیں ہے ۔

ایم ایم نیوز:ایک روپیہ فیس مقرر کرنے کی وجہ کیا تھی ؟
پروین راؤ : ابتداء میں میرا خیال تھا کہ میں بچوں سے کم فیس لیکر باقی خرچا خود برداشت کرلوں گی لیکن جب میں نے انہیں پڑھانا شروع کیا تو پتا چلا کہ یہ بچے 30 روپے فیس ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔اس لئے میں نے ایک روپیہ فیس مقررکردی۔

ایم ایم نیوز:تعلیم کے اخراجات کیسے پورے کرتی ہیں ؟
پروین راؤ : شروع میں میں اکیلی بچوں کو تعلیم دیتی اور اخراجات برداشت کرتی تھی لیکن رفتہ رفتہ عمل دانش اسکول کے چرچے میڈیا میں پہنچے تو لوگوں نے اس نیک مقصد کی تکمیل میں میرا ساتھ دینا شروع کردیا۔

ایم ایم نیوز:عمل و دانش اسکول میں تعلیم کا طریقہ کار کیا ہے ؟
پروین راؤ : میں نے اس اسکول کو چار جہتوں  میں تقسیم کردیا ہے، پہلے حصے میں تعلیم اور ہنرساتھ ساتھ اور یہ ہراسکول میں ہونا چاہیے، یعنی کہ ہفتے میں دو دن بچے کوئی ہنر بھی سیکھتے ہیں، دوسرے حصے میں ایسے بچے جواوائل عمری میں تعلیم حاصل نہیں کرپاتے وہ یہاں تیزرفت اسکول میں بڑی عمر کے بچوں کو3 سال میں 6 جماعتیں پڑھائی جاتی ہیں۔تیسرا حصہ ہے کمیونٹی سروسز، ہماری خواہش ہے کہ بچوں میں دوسروں کی خدمت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ہم نے چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کے بچوں کیلئے امتحان میں 30 نمبر اضافی رکھے ہیں اور ان جماعتوں کے بچے باشعور ہوتے ہیں اس لئے ان کیلئے ایک شرط رکھی ہے کہ انہوں نے اپنی بستی کیلئے کیا خدمات انجام دیں اور اس میں ایک سال میں کسی ناخواندہ کو پڑھنے کے قابل بنانا بھی شامل ہے۔چوتھی جہت یہ ہے کہ ٹیچرزٹریننگ اینڈ ایجوکیشن سپورٹ پروگرام ، ہمارے ملک میں یہ رواج نہیں ہے کہ بچیوں کو باقاعدہ ٹریننگ دیکر اسکول میں تعلیم دینے کیلئے بھیجا جائے۔

ایم ایم نیوز: کیا بچوں کے ساتھ اساتذہ کیلئے بھی کوئی پروگرام جاری ہے ؟
پروین راؤ : میرے لئے یہ نہایت تکلیف دہ امر ہوتا ہے جب کہا جاتا ہے کہ بس بی اے ہونا چاہیے، تو ہم نے اپنے اسکول میں ہی یہ سسٹم بنایا ہے کہ ٹیچر ٹریننگ سال بھر ساتھ چلتی رہے گی۔بچے سے متعلق، بچے کی تعلیم، بچے کی اسکلز، بچے کی نفسیات سب کچھ جوجو نہیں آتا وہ سب کچھ سکھایا جائیگا۔

ایم ایم نیوز:میٹرک کے بعد بچوں کو کس طرح سپورٹ کرتے ہیں ؟
پروین راؤ : ہمارے معاشرے میں اکثر ماں باپ کہتے ہیں کہ ہم نے میٹرک کروادیا اور بہت پڑھادیا ہے اب بس کریں اور اب نوکری کریں۔اس لئے ہم بچوں کو آن جاب تعلیم فراہم کرتے ہیں یعنی بچوں کوقرض دیتے ہیں کہ آپ بی اے اور ایم اے کرکے جائیں۔

ایم ایم نیوز:عمل ودانش میں فائن آرٹس پرزیادہ توجہ کی وجہ کیا ہے ؟
پروین راؤ : جہاں تک فنون لطیفہ کی بات ہے تو اس کیلئے ایک مثال ہے کہ اگر آپ کچھ سنتے ہیں تو وہ آپ کو کچھ عرصہ بعد بھول جاتی ہیں لیکن جب آپ کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو وہ آپ کو تادیر تادرہتی ہے اور بہت کچھ سمجھادیتی ہے۔تو فائن آرٹ ایک ایسی چیز ہے کہ جس میں آپ مختلف طریقوں سے کام کرتے ہیں اور آپ کی سوچ کے درکھلتے ہیں اور آپ کو مسائل کا حل کرنے کا شعور بیدار ہوتا ہے۔

ایم ایم نیوز:یہاں بچوں کوتعلیم کے علاوہ کونسے ہنرسکھائے جاتے ہیں؟
پروین راؤ : ہم بچوں کو کڑھائی،الیکٹریشن، موبائل فون کی مرمت اور کچھ اور ہنربھی سکھاتے ہیں اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جب ہم بچوں کو کچھ سکھاتے ہیں تو وہ بتائے ہوئے سے زیادہ کرکے دکھاتے ہیں۔

ایم ایم نیوز:عمل ودانش کے حوالے سے شہریوں کو کیاپیغام دیناچاہیں گی ؟
پروین راؤ : عمل و دانش نسلیں سنوارنے کا منصوبہ ہے اور اس مقصد کیلئے ہمیں اساتذہ اور مالی مدد کی ضرورت رہتی ہے اور اگر کوئی اس کارخیر میں ہمارا ساتھ دینا چاہے تو ہمارے لئے خوشی کی بات ہوگی۔

Related Posts