یہودیت مذاہب عالم میں واحد مذہب ہے جو نسل کی بنیاد پر اپنا وجود رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی باہمی وعظ و نصیحت تو کرتے ہیں لیکن کسی غیر “بنی اسرائیلی” کو اپنے دین میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دیتے اور نہ ہی کسی کو یہودیت قبول کرنے پر یہودی تسلیم کرتے ہیں۔
چار سال قبل پی ٹی ایم وجود میں آئی تو پہلی بار یہ چیز دیکھنے کو ملی اس نیشنلسٹ تنظیم کو نسلی بنیاد پر ہی اسرائیل سے بھی حمایت ملی۔ اس پر پشتونوں کے یہودی النسل ہونے کا معاملہ ایک بار پھر زیربحث آگیا۔
ایک پشتون کی حیثیت سے ہی نوجوانی میں اس حوالے سے جو مطالعہ کیا تھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ پشتون تو بخت نصر کے حملے کے موقع پر جان بچا کر اس علاقے میں آئے تھے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام ان تک کسی لشکر کی صورت نہیں آیا تھا بلکہ دور رسالت میں ہی قیس عبدالرشید مدینہ منورہ پہنچے تھے اور وہی اسلام کے پہلے داعی کے طور پر اس خطے میں لوٹے تھے۔
فارس آنے والا مسلمانوں کا لشکر براستہ ہرات وغیرہ موجودہ افغانستان کے علاقوں کی جانب آنے کے بجائے بعد کے ادوار میں شمال مغرب میں پیش قدمی کرتا ہوا سینٹرل ایشیا چلا گیا تھا۔ خراسان کے علاقے میں کسی عرب لشکر کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ یہاں کی جنگی تاریخ دیکھی جائے تو بعد کے ادوار میں مسلمانوں کی باہمی جنگیں یا خطے کی ہندو ریاستوں سے ان کی لڑائیاں ہی ملتی ہیں، کسی عرب لشکر کا یہاں آنا ثابت نہیں۔
ہمارا یہ خطہ “کریڈل آف سولائزیشنز” کہلاتا ہے۔یہاں ہزاروں سال کی تاریخ رکھنے والی کئی تہذیبیں کاندھے سے کاندھا جوڑے کھڑی ہیں۔ مثلاً چائنیز تہذیب، ہندوستانی تہذیب، سندھی تہذیب، پشتون تہذیب اور ایرانی تہذیب۔ پھر بالخصوص پاکستان کی انفرادیت یہ ہے کہ ان تہذیبوں میں سے دو تو پاکستان کی حدود اربعہ کے اندر ہی باہمی ملاپ رکھتی ہیں۔ یعنی پشتون اور سندھی تہذیب جبکہ باقی تین تہذیبوں سے اس کی سرحدیں ملتی ہیں۔
یوں اس خطے کے ممالک میں سے صرف پاکستان ہی ہے جو اس خطے کی پانچوں بڑی تہذیبوں سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ تاریخی طور پر تہذیبیں نسل کی بنیاد پر ہی وجود رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب کا ردوبدل جتنا بھی اثر ڈال لے کسی تہذیب کی نسلی روایات کا یہ ردوبدل مکمل خاتمہ نہیں کر پاتا اور یہ خاتمہ اسلام کو مطلوب بھی نہیں۔ اسلام کا جھگڑا صرف ان روایات سے ہے جو اللہ سبحانہ و تعالی کے احکام سے متصادم ہوں۔
چنانچہ خود عربوں کی بھی بہت سی قدیمی روایات کو اسلام نے نہیں چھیڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں میں اپنی پرانی تہذیبی روایات بھی پائی جاتی ہیں۔ الارم تب بجتے ہیں جب ایسی روایات لوٹنے لگیں جو اسلام کی روح سے متصادم ہوں اور قدیمی تہذیبی روح سے قریب تر۔ چنانچہ ہمارا آئین جب یہ کہتا ہے کہ قرآن و سنت سے متصادم قانون سازی نہیں ہوگی تو یہ پہلا سدباب انہی قدیمی روایات کا کر رہا ہوتا ہے۔
اسلام سے متصادم قدیمی تہذیبی روایات کے حوالے سے حساسیت کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم پشتونوں کا یہ دلچسپ طعنہ تو سنتے ہی رہتے ہیں کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے یا مقامی پنجابیوں میں ہندو کلچر کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے اور اس حوالے سے شادی یا دیگر اجتماعی تقریبات کے حوالے بھی دیئے جاتے ہیں لیکن خود پشتون یہ بھول جاتے ہیں کہ جس باب خیبر کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اکھاڑ پھینکا تھا یہ اپنے آپ کو اس کی یاد سےاب تک نہیں نکال پائے۔
حالانکہ باب خیبر کا تو اس خطے سے کوئی لینا دینا تھا اور نہ ہی وہ یہودیوں کی کوئی مقدس چیز تھی۔ باب خیبر عرب (نسل مراد نہیں) یہودیوں کی چیز تھی اور یہ عرب یہودی تو خود آج کے اسرائیل میں بھی تھرڈ کلاس سٹیزن ہیں۔ اسرائیل کی بالادست کلاس یورپین یہودی ہیں عرب نہیں۔
اسی طرح پشتونوں میں ایک چیز ایسی بھی پائی جاتی ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالی نے یہودیوں کے بڑے جرائم میں شمار کر رکھا ہے اور وہ ہے “سود” اور یہ وہ لعنت ہے جسے اس موجودہ جدید دنیا پر بھی عالمگیر مالیاتی نظام کی صورت یہودیوں نے ہی مسلط کیا ہے۔ پشتونوں میں سودی لین دین اب بھی سالانہ کھربوں روپے کا ہو رہا ہے۔
میں ذاتی طور پر ایسے کھرب پتی پشتونوں کی ایک معقول تعداد سے واقف ہوں،جن کا کل بزنس سود پر رقم فراہم کرنا ہے اور ان کے اس سودی کار و بار کا عالمی نظام سے کوئی لینا دینا نہیں۔ کیونکہ ان کے ہاں تو یہ ہے بھی”اَن ڈاکومینٹڈ” بزنس۔
یہ فطری عمل ہے کہ جب کسی تہذیب میں اس کے روبعمل مذہب پر عمل کمزور پڑتا چلا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس تہذیب کی کلاسیکل روایات مذہبی روایات کی جگہ لینے لگتی ہیں۔ چنانچہ پشتونوں میں جو لوگ مذہب سے دور ہیں ان میں آپ کو سب سے پہلے “باب خیبر” اور اس کے بعد سود نظر آئے گا اور یہی وجہ ہے کہ جن خطوں میں مذہب کی جڑیں گہری ہوں وہاں “نیشنلزم” کا پہلا نشانہ مذہب ہی ہوتا ہے کیونکہ مذہب کے ہوتے نسلی روایات پنپ نہیں سکتیں۔
باچا خان مرحوم کے حوالے سے بعض مولوی بہت زور و شور سے یہ بات کرتے آئے ہیں کہ انہیں “علماء” سے بہت محبت تھی۔ بطور حوالہ یہ تحریک آزادی کے موقع پر دہلی میں دیوبندی علماء سے باچا خان کی نشست و برخاست کو استعمال کرتے ہیں لیکن عرض کردوں کہ یہ خوش فہمی صرف ہندوستانی یا پنجابی دیوبندی علماء کو لاحق ہے۔
ورنہ پشتون بیلٹ میں تو باچا خان اور ان کی آل کی زندگیاں علماء کے خلاف جد و جہد میں ہی کھپ گئی ہیں۔ آپ کسی پشتون عالم سے کبھی نہیں سنیں گے کہ باچا خان بہت “علماء دوست” ہستی تھے۔ وہ ایک کٹر پشتون نیشنلسٹ تھے اور اپنی اس حیثیت میں علمائے دین ان کا اولین نشانہ تھے۔ خاص طور پر ان کے فرزند غنی خان کی شاعری تو گھومتی ہی “ملا” کے مدار میں ہے۔
کیونکہ یہ فیملی بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ مذہب کو مسمار کئے بغیر نیشنلزم جگہ نہیں بنا سکتا۔ مگر ان باپ بیٹوں کا ملا کے خلاف زندگیاں کھپانے کے باجود 1990ء کے انتخابات میں اپنی آبائی سیٹ سے خان عبدالولی خان کا مولانا حسن جان سے ہار جانا ایک بہت ہی غیر معمولی واقعہ تھا کیونکہ اس شکست نے ثابت کردیا تھا کہ پشتون نیشنلزم کی جڑیں تو ابھی چارسدہ میں ہی زمین نہیں پکڑ سکیں۔
لگ بھگ ایک صدی کی محنت کے باوجود پشتون نیشنلسٹ اب تک یہ نہیں سیکھ سکے کہ سیاسی طور پر نیشنلزم کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ کسی اور “ازم” کا دست نگر نہیں ہوسکتا۔ جوں ہی یہ کسی اور ازم کا ہاتھ تھامے گا، اپنی روح کھو بیٹھے گاکیونکہ اس کے ہاں ملاپ کی واحد کوالیفکیشن “نسل” ہے اور پشتون نیشنلسٹوں کی حالت یہ ہے کہ پہلے یہ مدد کے لئے گاندھی جی سے بغل گیر ہوئے۔ وہ کام نہ آیا تو براستہ کابل ماسکو کے کمیونسٹ سینے سے جا لگے۔ وہ بھی نہ رہا تو نائن الیون کو نعمت غیر مترقبہ جان کر سیدھا واشنگٹن سے جا ملے۔
یوں ان منافقانہ قلابازیوں کے ہوتے پشتون نیشنلزم کوئی سنگین خطرہ بننے کی بنیادی صلاحیت سے بھی محروم ہے۔ اب چونکہ ہوتا یہ ہے کہ مذہب کو عمل سے خارج کرنے کے نتیجے میں قدیمی نسلی و ثقافتی روایات ہی لوٹتی ہیں اور پشتونوں کی قدیمی نسلی روایت و ثقافت تو ہے ہی یہودیت۔ اور یہودیوں سے متعلق قرآن مجید کہہ چکا کہ یہ بطور سزا ہمیشہ دوسروں پر ڈپینڈنٹ رہیں گے۔
چنانچہ نتیجہ یہ ہے کہ پشتون نیشنلسٹ بھی اسلام کے بجائے باب خیبر اور یہودی روایات سے قربت کے نتیجے میں کبھی گاندھی جی، کبھی خروشیف تو کبھی بش جونیئر پر ڈپینڈنٹ رہتے آئے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کی تاریخ میں افغانستان سے امریکی انخلاء نے ان بیچاروں کو بھی ایک بار پھر یتیم کردیا ہے۔ ان کے لئے کابل کے دروازے ایک بار پھر بند ہونے جا رہے ہیں۔ ایسے میں سوال بس یہ رہ جاتا ہے کہ اب ان کا اگلا مائی باپ کون ہوگا ؟۔