ویکسین کی قلت، ایک تشویشناک مسئلہ

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت کا ویکسینیشن پروگرام مہلک کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے میں کافی معاون ثابت ہوا ہے ، تاہم گزشتہ روز پیدا ہونے والی ویکسین کی قلت نے ایک مسئلہ کھڑا کردیا جو یقینی طور پر ویکسینیشن کے اہداف کو متاثر کرسکتا ہے۔

رواں ہفتے کے آغاز میں1 لاکھ 30 ہزار افراد کو ویکسین لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ جمعرات کو ملک بھر کے ویکسین مراکز نے صرف 55 ہزار 728 افراد کو ویکسین کی خوراک مہیا کی جس میں 46 ہزار 113 ایسے افراد شامل ہیں جنہوں نے دوسری بار ڈوز لگوائی، یعنی اس دن 10 ہزار سے بھی کم افراد نے پہلی بار ویکسین لگوائی۔

کچھ ویکسینیشن مراکز عارضی طور پر بند ہیں۔ دیگر مراکز میں بہت سے لوگ ، جو دوسری خوراک کے اہل تھے انہیں واپس جانا پڑا کیونکہ مراکز کے پاس مخصوص ویکسین کی خوراک نہیں تھی۔ دوسری طرف ، بہت سارے افراد ویکسین کی پہلی خوراک بھی لگوانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان نے مجموعی طور پر صرف 1 کروڑ 27 لاکھ خوراکیں حاصل کیں ، جس سےصرف 30 لاکھ افراد کو ڈوز لگانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔بالغ آبادی کے اعتبار سے ملک کی 7 کروڑ کی آبادی کیلئے کل خوراکوں کی ضرورت 14 کروڑ بنتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسینیشن کی مہم میں بہت سے نئے چیلنجز سامنے آسکتے ہیں۔ 

رواں برس کے آغاز میں کوویکس ویکسین کی فراہمی رک جانے پر بہت سے ترقی پذیر ممالک کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور بیشتر اب بھی سپلائی کو محفوظ بنانے کی جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ ویکسین بنانے والی کمپنیاں ایسے امیر افراد، ممالک اور کمپنیوں کو پہلے ویکسین فراہم کرنے کی ترجیح دیتی ہیں جو خوراکیں لگوانے سے قبل آرڈر دے کر ادائیگی بھی کرچکے ہوتے ہیں۔

دوسری خوراک لگوانے والے افراد کو ترجیح دی جاتی ہے، اس لیے ویکسین کی عدم دستیابی کی وجہ سے عوام میں اچانک خوف و ہراس پھیل گیا اور انہوں نے خوراک لگوانے کیلئے بھاگ دوڑ شروع کردی۔ تاہم ، اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان میں ویکسین لگوانے میں تساہل اور ہچکچاہٹ کا خاتمہ ہوا اور لوگ بڑے پیمانے پر مہلک وائرس سے بچاؤ کیلئے خوراک لگوانے کیلئے تیار نظر آئے۔

حکومت کی ویکسینیشن حکمت عملی پر لفظی بمباری بھی شروع ہوگئی ہے۔ ویکسین کی خریداری کے سلسلے میں غلط طرزِ عمل کا انتخاب کرنے پر حکمرانوں اور قانون سازوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

پاکستان سمیت کسی بھی ایسے ملک کیلئے ویکسین کی کمی ایک خطرہ قرار دیا جاسکتا ہے جہاں عوام ویکسینیشن میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی اور ویکسین لگوانے والوں کی شرح کم ہوتی ہے۔اس سے کورونا جیسی وباء سے چھٹکارے میں طویل مدت درکار ہوگی جو ہمارے کاروبار اور صحت کو متاثر کرسکتاہے۔

اس قسم کے مسائل کا سامنا کرنے کیلئے حکومت کو چاہئے کہ قرض دہندگان اور سپلائرز کے پاس پہنچ کر ویکسین کی فراہمی اورترسیل میں شفافیت کو یقینی بنائے تاکہ لوگ بے یقینی کی فضا سے باہر نکل سکیں۔ ویکسین کی درآمد اور مقامی طور پر تیار کی جانے والی ویکسین کی بلا تعطل فراہمی بھی یقینی بنائی جانی چاہئے۔ حکومت کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ کورونا سے بچاؤ کیلئے ویکسین لگوانے کے خواہش مند ہیں۔ 

Related Posts