موجودہ حالات اور وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہمیں صنعتوں کے بجائے زراعت پر ہونا چاہے، دنیا بھر میں صنعتی انڈسٹری میں بہت زیادہ مقابلے کا رجحان ہے اور چین سے لیکر امریکا تک سب پیداوار کی قیمتوں کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
پاکستان میں کاسٹ آف پروڈکشن کرنا بہت مشکل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کارخانوں کے پہیے تیل، بجلی ، گیس اور پانی سے چلتے ہیں بدقسمتی سے ان تمام چیزوں کی قلت ہمارے ملک میں بدرجہ اتم موجود ہے اور ان کی لاگت بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے ہم ہمیشہ سے ایکسپورٹ میں ناکام رہتے ہیں اور ہمارا تجارتی خسارہ کئی دہائیوں سے برقرار ہے۔
پاکستان میں مختلف حکومتوں سے ہمیشہ صنعت کاروں نے سبسڈی حاصل کی ہے جس سے ان کی ذات کو تو فائدہ ہوالیکن ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔پاکستان کو تجارتی خسارے سے نکالنے کیلئے صرف اور صرف ہمیں زراعت کی بہتری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔یہ وہ سیکٹر ہے جو عوام کیلئے خوردنی اشیاء کی لاگت کو کم کریگی اور عوام اپنی آمدنی میں سے کافی بڑا حصہ بچاسکتے ہیں۔
دنیا بھر کے اندر کھانے پینے کی چیزوں کی کمی دیکھنے میں آرہی ہے اور ہر ملک اپنی زمین، قدرتی موسم اور دیگر عوامل کی وجہ سے زراعت کے شعبے میں نہیں آتا اور خوش قسمتی سے پاکستان چاروں موسموں والا ملک ہے اور زمین نہایت زرخیز ہے مگر کسان اور کاشتکاری کے اوپر آج تک کسی نے سہی معنوں میں توجہ نہیں دی ہے اوریہ ہمیشہ جاگیرداروں اور وڈیروں کے رحم و کرم پر رہے ہیں کیونکہ زرخیز زمین کا بیشتر حصہ ان جاگیرداروں نے اپنی ملکیت بناکر رکھا ہے جس پر وہ کاشتکاری بھی کم کرتے ہیں اور اس زمین کی بناء پر انکم ٹیکس سے کئی عرصہ سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔
تجارتی کارخانوں میں نقصان دکھاتے ہیں تاکہ ٹیکس سے بچاجاسکے اور تمام فوائد کارخانوں کی زمینوں کے کھاتے میں دکھاتے ہیں جوکہ ٹیکس سے مبرا ہے۔چھوٹا کسان ہمیشہ سے ہی پریشان رہا ہے کیونکہ تعلیم سے محروم کسان کو کسی قسم کی بینکاری کا علم نہیں ہے اور جو فائدہ بینکوں کے ذریعے کسان کیلئے ہوتا ہے وہ ان تک نہیں پہنچتا، اس کیلئے جتنے بھی بینک ہیں وہ بھی گاؤں دیہاتوں میں خاص سرگرمی نہیں دکھاتے اور بینکار بھی لوگوں تک آگاہی پھیلانے کیلئے کوئی خاص دلچسپی کا اظہار بھی نہیں کرتے ۔
اگر حکومت بینکوں کو یہ ہدایت دیدیے کہ ان کو کاشتکاروں کو قرض کی تربیت دینا ضروری ہوگا تو کسان خود بغیر کسی قانونی کارروائی اور پیچیدگیوں کے قرض لے سکے تاکہ وہ اپنی زمین کی پیداوار میں جدید طریقوں سے کاشتکاری کرسکے اور اس کی فصل سرسبز و شاداب ہوجائے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پانی کاانتظام بھی جاگیرداروں کے قبضے میں ہوتا ہے اور حکومتی کی جانب سے رہنمائی و مدد نہ ہونے کی وجہ سے کسانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کسانوں کے پاس ویئر ہاؤسز اور ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے بھی منڈی تک پہنچانے یا محفوظ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے کسان اپنی فصلوں کی پیداوار آڑھتیوں یا تیسری پارٹی کو فروخت کردیتے ہیں جو کہ کم داموں پر کسانوں سے مال لیکر اپنے گوداموں میں ذخیرہ کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں زرعی اجناس کی قلت پیدا ہوتی ہے اور لوگ گرانفروشی کرتے ہیں اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔
موجودہ حکومت نے کسانوں اور زراعت کیلئے جو بجٹ مختص کیا ہے وہ ایک بار پھر زمینداروں اور وڈیروں کی نظر ہوسکتا ہے کیونکہ عام کسان کو بینکوں سے قرضوں کی فراہمی اور ویئرہاؤس بنانے کا علم نہیں اور پاکستان کا بینکاری نظام میں پیچیدگیوں کی وجہ سے ناخواندہ کسانوں کیلئے قرض کا حصول بہت مشکل ہے۔
اگر اسٹیٹ بینک ان مشکلات کو کم کرنے کیلئے ایک کاغذ پر چند شرائط لکھ کر قرض دیدے تو شائد ہمارے کاشتکار بینکوں سے قرض لے سکتے ہیں ، ہمارے ملک میں 70 فیصد کاشتکار بینکوں سے قرض لینے سے گریز کرتے ہیں جو اسٹیٹ بینک کی ناکامی اور زرعی پیداوار میں کمی کی بنیادی وجہ ہے۔
ہر سال پاکستان گندم کی پیداوار میں اضافہ دکھاتا ہے مگر باوجود اس کے حکومت گندم کی امپورٹ کرتی ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ آتا ہے اور یہی دوبارہ سے اس سال بھی ہورہا ہے اورکہا جاتا ہے کہ ہم گندم ذخیرہ کرنے کیلئے امپورٹ کرتے ہیں۔
کاش ہمارے پاس سائلوس جیسی سہولت ہوتی جو گندم کے ذخیروں کو کئی سال تک محفوظ رکھ سکتی ہے مگر پاکستان کی بدقسمتی کہ ہمارے پاس ایسی کوئی سہولت نہیں ہے جس کی وجہ سے ہمارا اناج بارش، موسمی تبدیلی ودیگر وجوہات کی بناء پرخراب ہوجاتا ہے۔
افسوس کہ ہم کب تک کبھی اپنے ہی اناج کو سرپلس دکھاکر ایکسپورٹ کرتے ہیں پھر اسی اناج کو امپورٹ کرتے ہیں اور افغانستان کے بارڈر پر لاکھوں ٹن گندم کا کاروبار جاری رہتا ہے جس کی وہ اناج کی قلت اور گرانفروشی کا مسئلہ ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔