گھوٹکی اسٹیشن پر کراچی آنے والی سرسید ایکسپریس کے ٹریک پرموجود ملت ایکسپریس سے ٹکرانے کے نتیجے میں اموات کی تعداد 40سے بڑھ چکی ہے جبکہ حادثے میں 70 سے زائدافراد زخمی ہوئے جنہیں مختلف اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے ۔جائے حادثہ پر امدادی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن یہاں توجہ طلب امر یہ ہے کہ ٹریک خطرناک ہونے کے باوجود ٹرین کیوں چلائی گئی اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع اور مالی نقصان کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی۔
گھوٹکی حادثہ
گھوٹکی ٹرین حادثے کے زخمی مسافروں کاکہنا ہے کہ حادثہ ریلوے حکام کی غفلت سے ہوا ، ملت ایکسپریس کی بوگی نمبر10 کا کلمپ ٹوٹا ہوا تھا ،جس کے بارے میں کراچی کینٹ پر ریلوے عملہ کو آگاہ کیاتھا لیکن کلمپ کی مرمت کےبجائے عارضی حل کیاگیا،جس کے باعث ریتی کے قریب جھٹکا لگا اور کلمپ ٹوٹ گیا جس کے نتیجے میں بوگی الٹ گئی اور بوگی الٹنے کے فوری بعدسر سید ایکسپریس ٹکراگئی۔
سرسید ایکسپریس
انجن ڈرائیور سرسید ایکسپریس اعجاز شاہ نے میڈیا کو بتایا کہ ریتی اسٹیشن سے نکلنے کے بعد ٹرین مقررہ اسپیڈ پر تھی کہ اچانک ملت ایکسپریس کی بوگیاں ڈی ریل ہوتی نظر آئیں، فاصلہ کم ہونے پر ٹرین ملت ایکسپریس کی ڈی ریل بوگیوں سے ٹکراگئی۔سر سید ایکسپریس کے ڈرائیور نے کہا کہ ڈبے گرے ہوئے دیکھنے کے بعد میں نے ہنگامی بریک لگانے کی بہت کوشش کی لیکن گاڑی نہیں رکی اور ملت ایکسپریس سے جا ٹکرائی جو پہلے ہی حادثے کا شکار ہوچکی تھی۔
حادثے کی وجوہات
سکھر ڈویژن میں مین لائن کا تمام ٹریک اپنی میعادمکمل کرچکا ہے لیکن اسکے باوجوداسکو تبدیل نہیں کیا جارہا ،7 مارچ کو بھی سکھر ڈویژن میں ٹریک کھل گیا تھا اور چلتی ٹرین کراچی ایکسپریس کی پانچ بوگیاں پٹری سے نیچے اترگئی تھی جس کے نتیجہ میں ایک خاتون اور مسافر جاں بحق ہونے سمیت دیگر افراد زخمی ہوگئے تھے۔گریڈ 21 کے فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر نے بھی گزشتہ کراچی حادثہ کی انکوائری رپورٹ میں ڈی ایس سکھر کو اس ڈویژن کے لئے رسک قرار دیا ہے۔
ڈی ایس ریلوے سکھر
ڈی ایس ریلوےسکھر نے ٹریک کی خستہ حالی سےمتعلق گزشتہ ہفتے سی ای او ریلوے کو مراسلہ تحریر کیا جس میں کہا تھا کہ سکھر ڈویژن میں مین لائن کے456 کلو میٹرٹریک کی حالت خراب ہے اور برانچ لائن کا 532کلو میٹر ٹریک بھی خستہ حالی کاشکارہے اورانہوں نے لاہور سے کراچی کا ٹرین سفر غیر محفوظ اور خطرناک قرار دیاتھا۔
وفاقی انسپکٹر ریلوے
وفاقی انسپکٹر ریلوے فرخ تیمور نے ریلوے حادثات کا ممکنہ ذمہ دار ڈی ایس سکھر کو قرار دے دیا ہے،فرخ تیمور کی رپورٹ کے مطابق ڈی ایس سکھر کی جانب سے تیزرفتاری پر مجبور کیے جانے کے بعد سکھر سے ملتان ٹریک پر ٹرینیں تیزرفتاری سے چلائی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں حادثات کا خدشہ ہے۔ وفاقی انسپکٹر ریلوے کا رپورٹ میں کہنا ہے کہ سکھر سے ملتان تک ریلوے ٹریک تیز رفتاری کے قابل نہیں۔ ڈی ایس سکھر کو کسی بھی قسم کی آپریشنل ڈیوٹی نہیں دی جانی چاہئے۔
وزیر ٹرانسپورٹ سندھ
صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ اویس شاہ نے کہا ہے کہ ملک میں پرانی ٹرینیں چلانے سے حادثات میں اضافہ ہورہا ہے، وفاق سے کئی بارمطالبہ کیا کہ ریلوےلائنیں اورپرانی ٹرینیں تبدیل کریں لیکن وفاق سننے کو تیار نہیں،کبھی ٹرینیں پٹری سے اتر جاتی ہیں تو کبھی ٹکرا جاتی ہیں، ہم حادثے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ذمہ داری کون لے گا
پاکستان میں ٹرینوں کے حادثات بڑھتے جارہے ہیں اور موجودہ دور حکومت میں ٹرینوں کے حادثات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن ذمہ داران کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے قیمتی انسانی جانوں اور اربوں روپے کا مالی نقصان ہوچکا ہے۔
ریلوے افسران کے مطابق ٹریک خراب تھا تو اس پر سفر کی اجازت کیوں دی گئی اور مسافروں کے مطابق اگر بوگی کا کلمپ ٹوٹا ہوا تھا تو اس بوگی کی مرمت کیوں نہیں کی گئی اور اگر ڈی ایس سکھر کی ذہنی حالت درست نہیں تو انہیں انتہائی اہم ذمہ داری کیوں دی گئی۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل مہذب دنیا کی مثالیں دیا کرتے تھے لیکن ان کے اپنے دور میں ہونیوالے حادثات خود عمران خان کے قول و فعل میں تضاد واضح کرتے ہیں۔
سابق وزیرریلوے شیخ رشید کے دور میں درجنوں حادثات ہوئے لیکن انہوں نے استعفیٰ دینا تو دور کی بات حادثات پر معذرت بھی کرنا گوارا نہیں کیا۔
اب وزیراعظم پاکستان عمران خان کی ذمہ داری ہے کہ حادثات کے ذمہ داران کا تعین کرکے قرار واقعی سزاء دی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جاسکے۔