پاکستان کی صنعتی پالیسی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کسی ملک کی صنعتی پالیسی یا صنعتی حکمت عملی اس ملک کی معیشت کی نشوونما کے لیے کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ پالیسی سازوں  کی مینوفیکچرنگ سیکٹر کے سبھی حصے پر توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ صنعتی پالیسی میں سرکاری اور نجی شعبوں کے لئے قوانین، ضوابط اور سرگرمیاں مختلف شعبوں کے تحفظ کے لیے فریم ورک فراہم کرتی ہیں۔

ماضی میں پاکستان میں پالیسی ساز ملک کے صنعتی شعبے کو ترقی دینے کے لیے عوامی پالیسی کے دو مقاصد کو مد نظر رکھتے تھے۔ پہلی چیز بنیادی کھپت کی اشیاء میں خود کفالت حاصل کرنا تھی۔ دوسرا صنعتوں کے درمیان مقابلے کو رجحان کو فروغ دینا۔

دونوں ہی معاملات میں صنعتی پالیسی تجارتی پالیسی سے ساتھ کافی حد تک مماثلت رکھتی تھیں۔ تاہم بعض اوقات یہ بین الاقوامی تجارت کے کچھ پہلوؤں سے متصادم کا بھی باعث بنی۔ مثال کے طور پر 1949 کی پاک بھارت تجارتی جنگ نے پاکستان کو بنیادی تیاریوں میں خود کفالت کے لئے پہلا طریقہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ نئی صنعتی پالیسی 1991 کے ساتھ ، ہندوستانی حکومت نے ملکی معیشت کو عالمی معیشت کے ساتھ مربوط کرنے کے ارادے سے عوامی شعبے کی کارکردگی اور پیداوری کو بہتر بنانا۔

پاکستان میں صنعتی پالیسی کی ایک متنوع تاریخ ہے۔ صنعتی پالیسیاں یا تو درمیانی مدت کے ترقیاتی منصوبوں کے طور پر بنائی گئیں یا کسی بحران کے جواب میں یا کسی دوسرے ملک کی مثال کو سامنے رکھ کر بنائی گئیں۔ کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ صنعتی پالیسیاں نے ملک کی صنعتی ڈھانچے پر دیرپا اثر چھوڑے ہیں۔

پاکستان نے اپنی پالیسی 1948 میں یعنی پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد بنائی تھی ، تاہم 1949 میں انڈیا نے پاکستان پر تجارتی پابندی عائد کردی ، ہندوستان کے اس فیصلے کے تناظر میں پاکستان نے اپنی صنعتی پالیسی کو مزید مربوط کیا۔ دوسرا پانچ سالہ منصوبہ 1960 سے 1965 تک بنایا گیا جبکہ تیسرا پانچ سالہ منصوبہ 1965 سے 1970تک کے لیے بنایا گیا۔

چوتھی صنعتی پالیسی جمہوری حکومت نے دی جوکہ 11 سالہ تعطل کے بعد حکومت میں آئی تھی۔ 1976 سے 1988 تک طویل فوجی حکومت اقتدار پر رہی جبکہ 1999 میں ایک مرتبہ پھر فوج عرصے کے لئے اقتدار پر مسلط ہو گئی ۔ جنرل پرویز مشرف ملک پر حکومت کرنے والے چوتھے فوجی حکمران تھے۔

1949 میں دولت مشترکہ کا حصہ بننے والے ممالک کی کرنسی کو امریکی ڈالر کے مقابلے میں کم کیا جارہا اس لیے پاکستان نے دوسرے ممالک کی پیروی نہ کرنے کا انتخاب کیا۔ عین اسی وقت ہندوستان نے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کردی ، جبکہ ابھی پاکستان کی بنیاد بن رہی تھی۔

صنعتی پیداوار میں کمی سے پاکستانی معیشت کی شرح نمو بھارت ، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے پیچھے رہ گئی ہے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی برآمدات عالمی سطح  پر بہت کم رہ گئی ہیں، جبکہ اس وقت بنگلہ دیش کا حصہ دوگنا اور ویتنام کا حصہ سات گنا بڑھ گیا ہے۔ عالمی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی نسبت بنگلہ دیشی مصنوعات کی زیادہ ڈیمانڈ ہے۔

کسی بھی ملک کی صنعتی ترقی اس کی معیشت کی ترقی میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے، جبکہ مزدور کسی بھی صنعت کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ خطرہ زیادہ دور نہیں ہے ساری دنیا کی معیشت اس وقت ایک خطرناک دائرہ میں گھوم رہی ہے۔

عالمی وباء کورونا وائرس نے دنیا کی معیشت کے دو ستونوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ دنیا بھر میں طلب اور رسد میں نمایاں فرق آیا ہے۔ چائنہ کے علاوہ کورونا وائرس سے سب متاثر ہونے والے ممالک میں امریکہ ، برطانیہ ، اٹلی ، اسپین ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں۔

یہ ممالک نہ صرف عالمی پیداوار اور تجارت میں (تقریباً 40٪) کے شراکت دار بلکہ ان کی مینوفیکچرنگ ویلیو ایڈیشن میں بھی نمایاں حصہ ہے۔ آزادی کے وقت ، پاکستان کو برصغیر میں 921 صنعتی یونٹوں میں سے صرف 34 صنعتی یونٹ ملے تھے۔ ٹیکسٹائل، سگریٹ، چینی، چاول، سوتی جننگ اور آٹے بنانے والی صنعتیں تھیں۔ اور انہوں نے مل کر جی ڈی پی میں صرف 7 فیصد حصہ ڈالا اور 26،000 سے زیادہ ملازمین کو ملازمتیں دیں۔

پاکستان کو روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے برآمدات میں اضافہ کرنا اور درآمدات میں کمی کرنی ہو گی اور اس کے لیے پاکستان کو ایک مضبوط صنعتی پالیسی کو اپنانا ہوگا۔ صنعتی پالیسی کے پانچ سالہ اہداف میں یہ ہونا چاہئے: جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کی٪ شراکت کو موجودہ 13.5٪ سے 25٪ تک لے جانا۔  صنعتی پیداوار کی برآمدات کو 77 فیصد سے بڑھا کر 85 فیصد لے جانا ہوگا۔ سالانہ شرح نمو کو 5-6 سے بڑھا کر 10 فیصد تک لے جانا ہوگا۔

سرمایہ کاری 16 فیصد سے بڑھا کر 30 فیصد سے لے جانا ہوگی ۔ عالمی برآمدات میں اپنا حصہ 0.13 فیصد سے بڑھا کر 0.25 فیصد لے کر جانا ہوگا۔ موجودہ جی ڈی پی کی شرح 8.2 سے 12.5 فیصد تک لے جانے کےلیے برآمدات 40 بلین ڈالر تک لے جانی ہوں گی۔

صنعتی پیداوار کو بڑھانے کے لیے ابھی سے ایک مربوط منصوبہ سازی کرنا ہو گی ۔ زرعی شعبے کو ترقی دینے کے لیے حکومت کو اپنے ٹیکس نیٹ کر بڑھانا ہوگا۔ صنعتی اور زرعی شعبے پاکستانی معیشت کا 40 فیصد ہے۔ منقولہ ، غیرمنقولہ اور تعمیراتی شعبے سے حاصل والے ٹیکس کی شرح صرف 2 فیصد ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کو ہر مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ تعمیرات کے شعبے سے ٹیکس وصولی کے لیے تعمیری اصلاحات کو سختی سے نافذ کرنا ہوگا۔

وہ پالیسیاں جن کی بدولت صنعتی ترقی ممکن ہوتی ہے اور جن کے لیے پہلے سے صف بندی کرنا پڑتی ہے وہ ہیں تجارت ، سرمایہ ، توانائی ، زراعت اور لیبر۔ صنعتی ترقی کے لیے وفاق اور صوبوں کے درمیان پیداشدہ تنازعات کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہےکسی بھی پالیسی فریم ورک کی سب سے اہم ضرورت سرمایہ کاروں کو طویل مدتی مستقل مزاجی فراہم کرنا ہونا چاہیے۔

حکومت کو صنعت کو تسلسل فراہم کرنے کے قانونی طور مضبوط پالیسیاں بنانی چاہئیں۔ جو بھی پالیسیز بنائی جائیں ان کے درمیان ایک تسلسل ہونا چاہیے ۔ صنعتی پیداوار میں مزید ترقی کے لیے ٹیکس کے نظام کو مضبوط کرنا ہوگا۔

خام مال پر ڈیوٹی کم سے کم کرنا ہوگی  تاکہ گھریلو طور پر جو اشیاء کی تیار کی جاتی ہیں ان پر لاگت کم آئے اور وہ اشیاء عالمی سطح پر بہتر قیمت پر فروخت ہوسکیں۔ قومی ٹیرف کمیشن کو فعال اور موثر بنانا ہوگا ، جو ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔

تجارتی معاہدوں کی بروقت تکمیل کے لیے حکومت کو پیداواری یونٹس کو سہولتیں دینا ہوں گی تاکہ جن ممالک سے معاہدے کیے گئے ہیں ان  کو سامان کی ترسیل وقت کی جاسکے۔ مالی پالیسی بناتے وقت ٹیکس وصولی کے اہداف کو الگ رکھنا ہوگا۔

عالمی سطح پر مقابلے بازی کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتوں کو بجلی کی فراہم کم سے کم قیمت پر فراہم کرے ۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان تنازعات کو فوری حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کاروبار میں آسانی پیدا ہوسکے۔

صنعتی ترقی کے لیے حکومت سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کریں اور ایسی پالیسیز بنائیں کہ سرمایہ کار بنا کسی خوف کے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔ حکومت کو احتساب کے معیار کو بہتر بنانے کےلیے بہتر قانون سازی کرنا ہوگی۔ ہاؤسنگ انڈسٹری کو ترقی دینے کےلیے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ طویل مدتی پالیسیز کی جگہ درمیانی مدت کی پالیسیز کو فروغ دینا ہوگا۔

حال ہی میں ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے مالی سال 2018-19 کی اپنی سالانہ رپورٹ میں حکومت کو “فوری ترجیحی بنیادوں پر ایک مربوط صنعتی پالیسی وضع کرنے کی سفارش کی ہے۔” اسی طرح ، پاکستان بزنس کونسل نے “روزگار ، ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹ اور امپورٹ متبادل کو فروغ دینے کے لئے ایک نئی صنعتی پالیسی” کا مطالبہ کیا۔ در حقیقت ، بہت ساری اصلاح پسند تنظمیں حکومت سے نئی صنعتی پالیسی کو نافذ کرنے پر زور دے رہی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ان مطالبات پر غور کرتے ہوئے ، حکومت نے 10 سالہ صنعتی پالیسی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نے وزارت صنعت اور وزارت تجارت کو ایک نیا مسودہ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

شدید مالی مشکلات اور سبسڈی کے خلاف بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے وابستگی کے باوجود ، اس سال حکومت نے ان شعبوں کے لئے 25 ارب روپے کی گیس سبسڈی کی منظوری دی ہے۔ یہ پالیسیز ملکی صنعتی ترقی میں اہم کردار ادا کریں  گے۔

Related Posts