جب ہم معاف کرنے کی طاقت یا معافی کی قوت کے متعلق گفتگو کرتے ہیں تو مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے بلکہ سوال یہ ہوتا ہے کہ ہم میں ان لوگوں کو معاف کرنے کی کتنی صلاحیت موجود ہے جنہوں نے ہم پر ظلم کیا ہو؟ اس بات پر بہت سے لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم ان لوگوں کو کیوں معاف کریں جنہوں نے ہم سے ناانصافی اور ظلم کیا ہو اور لوگوں کو خود کو روند کر آگے بڑھنے کی اجازت کیوں دی جائے؟
جی ہاں، آپ کی یہ بات درست ہے تاہم جس چیز کا ہمیں ادراک نہیں، وہ یہ ہے کہ دوسروں کو معاف کرنے سے ہمیں طاقت ملتی ہے۔ ہمارے ساتھ ہونے والی ناانصافی یا زیادتی سے پیدا ہونے والا شدید غصہ ہمارے ہی خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جن میں ہم دوسروں پریہ ظاہر کرنے کیلئے طاقت حاصل کرسکتے ہیں کہ ہمیں جو چیز خوشی یا غم دیتی ہے، ہم اس پر قابو پاسکتے ہیں۔ ہم جب چاہیں، جسے چاہیں اور جس بنیاد پر بھی چاہیں معاف کرسکتے ہیں۔
معاف کرنا اور درگزر اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبروں کی صفت ہے۔ فتحِ مکہ کے روز نبئ آخر الزمان ﷺ نے اپنے دشمنوں سے فرمایا کہ آج سے تم سے کوئی بازپرس نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ماضی کی ناانصافیوں پر معاف فرمادیا تھا۔ کفارِ مکہ کے بد ترین مظالم کے پیشِ نظر سوال کیا جاسکتا تھا کہ خاتم النبیین ﷺ یہ کیسے کرسکتے ہیں؟ آپ ﷺ نے ایسا اس طرح کیا کہ آپ ﷺ حاکم تھے اور اختیارات رکھتے تھے۔ اس فعل سے سرورِ عالم ﷺ نے ہمیں یہ سبق دیا کہ ہمیں زندگی میں انصاف چاہئے تو اس کیلئے کسی سے انتقام لینے کی ضرورت نہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم دنیوی زندگی میں کبھی وہ عدل و انصاف حاصل نہیں کرسکتے جیسا کہ اس کا حق ہوتا ہے، اس لیے تمام تر غم و غصے پر قابو پانے پر قابو پانے میں ناکامی اور معاف کرنے کی صلاحیت کا فقدان بذاتِ خود کسی قید سے کم نہیں جو ہم اپنے آپ پر مسلط کر لیتے ہیں۔
دوسری جانب کسی کو معاف کردینا اور معاملہ اللہ کے سپرد کردینا جو ہمیں دنیا یا آخرت میں انصاف فراہم کرنے والا ہے، یہ معنی نہیں رکھتا کہ ہم دنیوی زندگی میں انصاف کے ان تمام راستوں پر چلنا بند کردیں جو ہمارے لیے دستیاب ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ زندگی میں ہمیں چاہے انصاف ملے یا نہ ملے تاہم اللہ کے دربار میں ہم ہر صورت انصاف حاصل کرکے رہیں گے کیونکہ اس کے ہاں دیر تو ہے، اندھیر نہیں۔
محسنِ انسانیت ﷺ فرماتے ہیں کہ میں ایسے شخص کیلئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود بھی لڑائی جھگڑے سے گریز کرتا ہے۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4800)۔ اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خود پر اعتماد رکھنے والے شخص کو دیگر افراد سے بحث کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اسے معاف کرنے کا اجر اللہ تعالیٰ کی ذات سے حاصل ہوگا۔
حقوق العباد کے حوالے سے غور کیجئے تو معافی ہمیں دوسروں کے حقوق کو پورا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ہمارا مقروض ہو اور ہمیں اپنے بچے کی شادی میں آنے کی دعوت دے تو بحیثیت مسلمان ہمیں شادی کی تقریب میں لازمی شریک ہونا چاہئے کیونکہ یہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہوتا ہے، چاہے وہ اس کا مقروض ہی کیوں نہ ہو۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں انصاف کی طلب کرنے کی اجازت دے لیکن مغفرت اور رحم و کرم فرمائے کیونکہ ہمارے ایمان کا توازن ناراضگی اور تلخی پر مبنی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک کی ایک آیت میں مسلمانوں سے استفسار فرماتا ہے کہ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کردے؟ (حالانکہ) اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے (سورۂ نور، آیت نمبر 22)۔ سوال یہ ہے کہ ہم جو اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی خواہش رکھتے ہیں، اس کے بندوں کو معاف نہیں کرسکتے؟اس سوال پر غور ضرور کیجئے گا۔