کراچی میں قومی اسمبلی کی نشست کیلئے حلقہ این اے 249 کے ضمنی انتخاب نے پاکستان کے انتخابی نظام میں موجود نقائص کو بے نقاب کردیا۔ حلقے میں ضمنی انتخاب کا معرکہ کانٹے کی ٹکر ثابت ہوا کیونکہ علاقے میں متنوع آبادیاتی اور انتخابی تاریخ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی امیدوار فاتح بن کر سامنے آسکتا تھا۔
ممکنہ طور پر رمضان المبارک کے باعث ضمنی انتخاب کے دوران ووٹرز گھروں سے قلیل تعداد میں باہر نکلے۔ کورونا کا خوف اور بڑھتی ہوئی گرمی بھی اس کی وجہ قرار دی جاسکتی ہے، ایس او پیز کی پابندی میں سختی کا اطلاق بہرحال ضمنی انتخاب سے مطابقت نہیں رکھتا تھا کیونکہ پولنگ بوتھ دن کے بیشتر اوقات میں ویران ہی رہے، پھر بھی مذکورہ ضمنی انتخاب کو مختلف وجوہات کے باعث یاد رکھا جائے گا۔
سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ این اے 249 کے ضمنی انتخاب میں حکمراں سیاسی جماعت پی ٹی آئی زیادہ ووٹ لینے والوں میں چھٹے مقام پر رہ کر بری طرح شکست کھا گئی، حالانکہ یہ نشست صرف 3 سال پہلے ہی ایک معمولی فرق سے تحریکِ انصاف نے ہی جیتی تھی۔ فیصل واؤڈا کے گرد گھیرا تنگ ہوا تو انہوں نے سینیٹر بننے کیلئے قومی اسمبلی کی یہ نشست خالی کردی جس پر الیکشن منعقد ہوا۔ پی ٹی آئی حکومت کیلئے لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی ہر نشست جو اس کے ہاتھ سے نکلتی ہے، وفاقی حکومت کے اقتدار کیلئے نیا خطرہ پیدا کردیتی ہے۔ اس نقصان پر پی ٹی آئی کو تحقیقات کرنا ہوں گی کہ کراچی کے عوام میں اپنی حمایت کا توازن برقرار رکھنے کیلئے پی ٹی آئی کو کن اقدامات کی ضرورت ہے۔
ضمنی انتخاب پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر مندوخیل کی حیرت انگیز فتح کیلئے یادگار رہے گا۔ رات گئے جب پی پی پی کی جیت کا اعلان سامنے آیا تو ن لیگی امیدوار مفتاح اسماعیل نے اسے چیلنج کرنے کا اعلان کیا۔ یہ جیت ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مابین تنازعات میں مزید اضافے کا باعث بھی بنی ہے جس میں پی پی پی کی پی ڈی ایم سے علیحدگی کے بعد شدت دیکھی گئی تھی۔ پیپلز پارٹی نے انتخاب جیتتے ہی کراچی کے عوام میں اپنی مقبولیت کی تشہیر شروع کردی جبکہ مخالفین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے انتخاب جیتنے کیلئے صوبائی حکومت کے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ پیپلز پارٹی اپنا اقتدار برقرار رکھنے یا عوامی خدمت میں کامیاب ہوگی یا نہیں، یہ آئندہ انتخابات میں ہی نظر آسکتا ہے۔
ن لیگی امیدوار مفتاح اسماعیل نے جارحانہ انتخابی مہم کے باعث اپنی مرضی کی رائے عامہ قائم کر لی تھی جبکہ انہیں سرکاری حمایت حاصل نہیں تھی۔ مریم نواز نے انتخابی مہم کیلئے دورے کا اعلان کیا تھا جو منسوخ کردیا گیا۔ ضمنی انتخاب سے پتہ چلتا ہے کہ کالعدم ٹی ایل پی بھی عوام میں مقبول سیاسی جماعت ہے جس پر تحقیقات جاری ہیں۔ انتخاب کے دوران ٹی ایل پی حلقے کی تیسری طاقتور جماعت بن کر سامنے آئی۔پی ایس پی کے مصطفیٰ کمال اور ایم کیو ایم (پاکستان) فی الحال کراچی کی سیاست سے الگ نظر آتے ہیں۔
قبل ازیں پی ٹی آئی نے اپوزیشن سے انتخابی اصلاحات پر مل کر کام کرنے کی اپیل کی تھی تاکہ ہر بار عام انتخابات اور ضمنی الیکشن کے دوران لگنے والے دھاندلی کے الزام کو اپنی موت آپ مارا جاسکے۔ شاید یہ وہ واحد راستہ ہوگا جس کے ذریعے عوام کو پتہ چل سکے کہ انتخاب میں جیتنے والا امیدوار وہی ہے جسے انہوں نے ووٹ دئیے تھے۔