کیا آپ جانتے ہیں؟ دوسری قسط

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سابق آرمی چیف جنرل ضیاء الحق اقتدار کی مسند پر جمہوریت کے چیمپین کی حیثیت سے نہیں بلکہ سچے عقیدے کے نجات دہندہ اور سرپرست کی حیثیت سے نمودار ہوئے۔ انہوں نے ایمان کے ماڈیول کے ذریعے ہمارے مسخ شدہ معاشرتی توازن کو بحال کرنے کا عزم کیا لیکن انہیں اس بات کا احساس نہ ہوسکا کہ مذہب ایک مکمل فریم ورک کی بجائے کسی بھی شخص کی اخلاقیات کا ایک جزو ہوا کرتا ہے۔

اس خطرناک حد تک ناقص نظرئیے کی وجہ یہ قرار دی جاسکتی ہے کہ ان کی پیدائش ایک مذہبی گھرانے میں ہوئی اور وہ ایک راسخ العقیدہ گھر کے چشم و چراغ تھے۔ وہ مختلف عقائد رکھنے والے افراد کی تعریف نہیں کرتے تھے یا شاید یہ قبول نہیں کرسکتے تھے کہ مختلف عقائد رکھنے والے اچھے انسان یا زیادہ اچھے پاکستانی بھی ہوسکتے ہیں یا قائدِ اعظم نے قوم کیلئے جو راستہ چنا تھا وہی پاکستان کیلئے بہترین سیاسی آپشن تھا۔ اس غلط اور بے بنیاد قیاس آرائی کے ساتھ ہی جنرل ضیاء الحق آگے بڑھے اور ملک کو اپنے ذاتی نظریات کے تحت از سرِ نو اسلامی ریاست بنانے پر کام شروع کردیا اور ان کے ذاتی نظریات بالآخر سعودی پیٹرو ڈالرز اور سلفی ڈاگما پر جا ٹھہرے اور ایسا کیسے ہوا؟ یہ ہم تھوڑی دیر میں دیکھ سکیں گے۔ وہ لالچی نہیں تھے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ایک اہلِ بصیرت انسان تھے۔ملاؤں کے ساتھ ان کا خطرناک رابطہ اور معاشرے کی ری انجینئرنگ کیلئے ان کی ترکیبیں استعمال کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ ہمارے ہانپتے ہوئے معاشرے کی صحت، سیاسی سمت اور عالمی برادری میں ساکھ کیلئے سراسر تباہ کن ثابت ہوئے۔ جنرل ضیاء نے ملک کو فرقہ واریت اور قرونِ وسطیٰ کے خود ساختہ تصوراتی دلدل سے پُر ایک بہت بڑے گڑھے میں اتار دیا جہاں زیادہ جدوجہد کا مطلب زیادہ ڈوبنا ہوتا ہے۔ آج کے دور کی فرقہ واریت اور جانی دشمنی کی سطح کو تو صرف جنرل ضیاء کے دروزے پر ایک دربان ہی رکھا جاسکتا ہے جبکہ بھٹو نے سیلاب کیلئے دروازے کھول دئیے تھے۔

اس کے بعد جو اختلافی عناصر سامنے آئے، ان کا آسانی سے احاطہ کیا جاسکتا ہے جو ملک کو ناگزیر قومی تباہی کے دہانے تک لے گئے۔ ضیاء الحق نے بھٹو کے دورِ اقتدار کی بد صورتیوں کو جڑ سے اکھاڑنے کی پوری کوشش کی اور زبردستی مختلف رسوم و رواج اپنائے جن میں مذہبی پولیس بھی شامل تھی۔ علمائے کرام کو سرکاری دفاتر میں تعینات کیا گیا جس سے ملاؤں نے اقتدار کا ذائقہ چکھ لیا اور وہ اقتدار سے وابستہ رہنے کیلئے لامتناہی سیاست میں مصروف ہو گئے۔ ضیاء الحق کا مذہبی رجحان اور ملک کی ناقص معاشی حالت انہیں سعودی عرب کے قریب لے گئی جو اسی طرح کی تباہی کی تلاش میں تھے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے ملاؤں کی مداخلت کیلئے ہمارے مذہبی گہوارے آسان نشانہ بن گئے۔ مثال کے طور پر ایک مینار جیسی وہابی طرز کی مساجد کی تعمیر، پاکستان میں ہم خیال علماء اور مدارس کی چنیدہ فنڈنگ اور مدرسے کے طلباء کو مخصوص سعودی یونیورسٹیوں کا طالبِ علم بنانا وغیرہ۔ مقامی ہم خیال طبقے کا یہ اجتماع جلد ہی مختلف بلکہ خطرناک مقاصد کیلئے مفید ثابت ہوا۔ اسی اثناء میں ریاستِ پاکستان میں توہینِ رسالت کا قانون اور دیگر سخت قوانین سامنے آئے جس کیلئے مبینہ طور پر سعودیوں کو خوش کرنے کی جلدی کی گئی۔ ملک میں مذہبی لابی اور فرقہ واریت دونوں ہی قوم کیلئے ناگوار ثابت ہوئے اور ملک مختلف طرح کی آفات میں گھرتا چلا گیا جو افسوس کی بات ہے۔

مرحوم جنرل ضیاء کی ریاست کے خلاف بغاوت اور مذہبی عقائد کے خلاف عوامی جذبات بھی پنپتے رہے اور اس دوران ہمارے قریب دو اہم واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ ایک طرف ایران کو خمینی انقلاب نے یکسر بدل کر رکھ دیا جبکہ دوسری جانب روس نے افغانستان پر حملہ کردیا۔یہ دونوں جارحانہ نظریات تھے اور ہمارے توازن کیلئے کسی دھمکی سے کم نہیں تھے۔ تقریباً راتوں رات جنرل ضیاء اور ان کے حواری سیاسی و عسکری مفادات کے باعث امریکا کی آنکھوں کا تارہ بن بیٹھے کیونکہ وہ سعودیوں کے ہتھیار کے طور پر روس کے خلاف کام کرسکتے تھے اور جارح مزاج ایرانی حکومت کے دلوں میں خدا کا خوف بٹھا سکتے تھے جو کھل کر مشرقِ وسطیٰ کو دھمکیاں دے رہی تھی۔ درحقیقت یہ پاکستان میں ایران سعودیہ پراکسی جنگ کا آغاز تھا اور ہمارے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی ہوچکی تھی۔

خطے میں یکسر بڑی تبدیلیاں آئیں۔ امریکا اور سعودی عرب جیو اسٹرٹیجک مفادات پاکستان میں آ کر تبدیل ہو گئے اور ہماری عسکری قیادت نے ایک سنہری موقع دیکھتے ہوئے خود کو اقتدار پر مزید براجمان رکھنے اور ملک کیلئے مال کمانے کی نئی پالیسی اپنا لی۔ افغانستان پر سوویت قبضے کے خلاف خفیہ جہادشروع کیا گیا جو امریکا سعودی اتحاد کا حصہ بنا جس کا مقصد بالواسطہ طور پر ایرانی انقلابی اثر و رسوخ کم کرنا تھا۔ دونوں جانب کے ممالک نے پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ ایران کو1981ء تک غیر محفوظ محسوس کرانے کیلئے ایرانی حکومت نے پاکستان کی شیعہ برادری کو کمک فراہم کی جو مشتعل ہو گئی اور سوویت کو پاکستان کی انمول امداد کے ذریعے افغانستان میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ ہم نے افغانی مزاحمت کاروں کی بھی مدد کی اور انہیں اسلحہ بھی فراہم کیا اور اس طرح ہم نے سانپوں سے بھری ہوئی ٹوکری میں اژدہوں کو پالنا شروع کردیا جو کسی بھی وقت ہم پر حملہ کرسکتے تھے۔

آرمی چیف جنرل ضیاء اپنے مقاصد کی تکمیل کے بعد ایک پراسرار طیارہ حادثے میں چل بسے۔ امریکی ریاست نے جلد ہی جنگ ترک کردی اور اپنے مفادات کیلئے پاکستان کو انتشار کی جنگ میں جھونک دیا جس کی بدنام نسل ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ دہشت گردی نے عالمی برادری میں پاکستان کا دامن داغدار کردیا۔ قوم انتشار کا شکار ہوگئی، معاشی ترقی میں شدید رکاوٹیں درپیش رہیں اور دہشت گردوں کے بم حملوں کے باعث عام شہری بڑی تعداد میں جاں بحق اور زخمی ہوئے جو آج تک ہو رہے ہیں۔ ہر قدم پر پاکستان میں جب جب امریکا نے مداخلت کی، وہاں ہمیشہ تباہی، افراتفری اور انتشار پیدا کیا، جیسا کہ پاکستان سے قبل صومالیہ، عراق اور شام میں ہوچکا ہے۔

جنرل ضیاء الحق نے ملک میں ایک بار پھر نام نہاد تقویٰ سے تیار سیاسی طبقے کی ایک نئی نسل کو ترویج دینے کی کوشش کی۔ شاید وہ اپنی سادگی میں سوچ رہے تھے کہ ایسا ہوسکتا ہے اور پھر ہمیں مسلم لیگ (ن) کی شکل میں ایک ایسی سیاسی جماعت دی جو پیسوں کی بھوک میں کرپشن کے ریکارڈز بنانے لگے۔ انہیں پاکستان کی تاریخ یا تحریکِ پاکستان کی نیک نامی کا کوئی احساس نہیں ہے۔ سیاسی جماعت کی تیاری اور انتخاب ڈیزائن کے تحت کیا گیا تاہم جنرل کو نہ ہونے کے برابر یہ علم تھا کہ انہوں نے جو پودے بوئے ہیں، ان سے بدقماش جنم لیں گے جو قومی خزانہ لوٹتے ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا جو آج ہورہا ہے کہ فوج کی پیدا کی ہوئی جماعت خود اپنی نرسری کی ہی بڑی مخالف بن چکی ہے۔ جنرل ضیاء نے پیپلز پارٹی کو ناکام بنا دیا اور بھٹو کو پھانسی پر لٹکا کر ہمیشہ کیلئے امر کردیا۔

جلد ہی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو وزیرِ اعظم بن گئیں جن کے شوہر آصف علی زرداری ریاستی معاہدوں پر 10 فیصد حصہ وصول کرنے کے باعث جلد ہی مسٹر 10 پرسنٹ کے نام سے مشہور ہوئے۔ یہ کہنا عجیب محسوس ہوتا ہے لیکن اس وقت کیلئے زیادہ عجیب بھی نہیں کہ جب وزیرِ اعظم بے نظیر سے کہا گیا کہ جی ایچ کیو کا دورہ کریں تاکہ انہیں افغان جنگ پر بریفنگ دی جاسکے جو اس وقت جاری تھی۔ وہ اپنے کابینہ ممبران کے ہمراہ جی ایچ کیو پہنچیں جن میں مرحوم جنرل نصر اللہ بابر، اقبال اخوند، غلام سرور چیمہ اور دیگر شامل تھے۔ جنرل بیگ نے چیف آف آرمی اسٹاف کے آفس کے باہر انہیں خود رسیو کیا۔ وہ ان کی آمد سے کچھ دیر پہلے باہر نکلے تھے۔ دوبارہ اندر گئے اور پھر اپنی کیپ کے بغیر ہی باہر نکلے۔ یہ پرجوش تھا لیکن اس سے ایک غلط پیغام گیا کہ نئے وزیر اعظم کا کس طرح احترام کیا جائے گا۔ بے نظیر گھنٹوں کی خشک بریفنگ کے دوران سادگی سے بیٹھی رہیں اور نوٹس لیتی رہیں۔ اس دوران انہوں نے کچھ گہرے سوالات بھی پوچھے۔ ان کی افغان جنگ میں دلچسپی قابلِ غور تھی۔ نواز شریف نے اپنی اسکیمنگ فطرت کے مطابق جی ایچ کیو کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کردی اور جی ایچ کیو کے پی پی پی حکومت کے خلاف کان بھی بھرے۔

جلد ہی مرکز میں پنجاب اور پیپلز پارٹی کے مابین سیاسی درجۂ حرارت ناقابلِ برداشت حد تک گرم ہوگیا۔ یہ شاید 91ء کی بات ہے جب اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب نواز شریف نے ڈی جی رینجرز لاہور کو گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین کو گورنر ہاؤس سے باہر نکالنے کا حکم دے دیا۔ اگر اس غیر قانونی حکم کی تعمیل کی جاتی تو اس سے ایک خطرناک روایت جنم لیتی لیکن شریفوں کی ڈان جیسی ذہن سازی کیلئے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی جس پر وہ بعد ازاں کھل کر کھیلنے لگے۔

بابری مسجد کے انہدام کے بعد ایک بار پھر لاپرواہی کا مظاہرہ کرنے والے اور بلا سوچے سمجھے گفتگو کرنے والے نواز شریف تھے جنہوں نے اگلے ہی دن عوام کو زبردستی احتجاج پر اکسایا اور اسی دوران پنجاب میں ہندوؤں کی نجی و سرکاری املاک اور مندروں کی حفاظت کیلئے کوئی انتظامات نہیں کیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملا اپنے خطبات میں عوامی جذبات  کو بھڑکانے لگے اور لوگ بڑی تعداد میں جذباتی ہو کر گھروں سے باہر نکل آئے۔ کچھ ہندو مندروں میں جو کچھ ملا، اسے لوٹ لیا اور دکانوں، ٹریفک سگنلز اور سڑک کنارے موجود عمارتوں کو بھاری نقصان پہنچایا۔ سب سے زیادہ لاہور متاثر ہوا جہاں خود نواز شریف موجود تھے۔ پھر مجھے کور ہیڈ کوارٹرز لاہور میں خطرات کا سامنا کرنا پڑا جہاں میں بطور سینئر اسٹاف آفیسر تعینات تھا۔ اچھی بات یہ رہی کہ میں جین مندر لاہور کو ایک انتہائی جذباتی اور مشتعل ہجوم سے قطعی تباہی و بربادی سے بچانے میں کامیاب رہا۔ یہ نوازشریف کا ایک ایسا کارنامہ تھا جو آنے والے دنوں میں ان کی ناقص شخصیت کی علامت بن گیا کہ پہلے تو عوام کو مشتعل کریں اور جب مشکلات پیش آئیں تو خود پیچھے ہٹ جائیں۔

آنجہانی ضیاء الحق کا غیر منحرف سیاسی وارث نواز شریف کو بننا تھا جسے قدرتی طور پر بے وقوف ہونا چاہئے تھا کہ وہ فوج کو ایک بار پھر پیچھے ہٹنے پر مجبور کردے۔ ایک بار پھر اقتدار سنبھالے۔ انہوں نے بالکل ہی ڈرامائی انداز میں جہاز میں سوار  مسافروں کے ساتھ آرمی چیف کے ہوائی جہاز کے حادثے کا سبب بننے کی کوشش کی جو غیر متحرک طور پر بڑے پیمانے پر قتل و غارت کا زبردست طریقہ تھا۔ انہوں نے آرمی چیف کے پی آئی اے طیارے کو ملک میں کہیں بھی اترنے سے روکنے کے احکامات جاری کیے جبکہ ایندھن کی تیاری جاری تھی۔ انہیں امید تھی کہ ٹینک خالی ہونے کے بعد طیارہ ہی گر کر تباہ ہوجائے گا۔ فوج نے مداخلت کی۔ این ایس کو دروازہ دکھایا گیا۔ مقدمہ چلایا گیا اور انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ پھر سعودی عرب نے زبردست مداخلت کی اور غیر قانونی مداخلت سے نواز شریف کی زندگی بچ گئی۔ ملک میں فوجی حکمرانی کا نیا دور شروع ہوا جو خوبیوں کی بجائے بدنظمیوں کے باعث یادگار ثابت ہوا۔ کارگل تباہی سمیت ملک پر جب ضیاء الحق مرحوم نے ظاہری اسلامی اخلاقیات نافذ کی تو مشرف نے ضیا کی دھوکہ دہی پر مبنی میراث کو ختم کرنے اور ذاتی عادت کے طور پر پلے بوائے جیسے  گھڑ سوار کا سا کردار ادا کیا۔ مشرف کے دورِ اقتدار میں مسلح افواج کو خاص طور پر جبکہ عوام الناس کو عمومی طورپر نظریاتی الجھنوں کا سامنا رہا۔ 

Related Posts