جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی جنرل کے نمائندہ بن کر جواب جمع کرانے پر اعتراضات جمع کروا دئیے ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جمع کرائے گئے اعتراضات میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ اٹارنی جنرل سپریم جوڈیشل کونسل کا جواب جمع نہیں کروا سکتے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔
یہ بھی پڑھیں: ایران سعودیہ امن مشن: وزیر اعظم عمران خان کل سعودی عرب کا مختصر دورہ کریں گے
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعتراضات کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے اٹارنی جنرل کو جواب جمع کرانے کے حوالے سے خصوصی اجازت نامہ جاری نہیں کیا، اگر کیا ہے تو اس کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
اعتراضات کے مطابق ایک اٹارنی جنرل کا کام صرف مشاورت کار کا ہے جو وفاق کو قانونی معاملات میں مشورے دینے کا پابند ہے جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کی ایسی ہی کارروائی پر انہیں حدود سے تجاوز کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ان کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل بھی اٹارنی جنرل کو جواب جمع کرانے کی ذمہ داری نہیں دے سکتی۔ کونسل اٹارنی جنرل کو اپنا وکیل بنا کر آئین کی شق 100 کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔ اعتراضات میں لگائے گئے الزامات پر کونسل اور سیکریٹری کا جواب آنا ضروری ہے، بصورتِ دیگر یہ تصور کیا جائے گا کہ لگائے گئے الزامات درست ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اہلخانہ کی ملکیتی جائیدادوں کی منی ٹریل دینے سے انکار کر دیا،جسٹس فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا کہ وہ اپنے اہلخانہ کی زیرملکیت جائیدادوں کی منی ٹریل دینے کے پابند نہیں۔
سپریم کورٹ میں گزشتہ روز جمع کرائے گئے اپنے جواب الجواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مری اہلیہ اور بچے میرے زیرِکفالت نہیں ہیں، مجھے اپنے اہلخانہ کے مالی معاملات کے متعلق تفصیلات کا علم نہیں ہے بالکل ویسے ہی جیسے میرے اہلخانہ میرے مالی معاملات کے متعلق نہیں جانتے۔ اس لیے انہیں اہلیہ اور بچوں کے زیرملکیت جائیدادوں کی تفصیل سے آگاہ کرنے کا نہیں کہا جا سکتا۔
مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کااہلخانہ کی ملکیتی جائیدادوں کی منی ٹریل دینے سے انکار