عراق کے شہر بغداد میں ماہرِ الجبرا ستائتا المحاملی اپنے وقت کی مشہورومعروف ریاضی دان گزری ہیں۔ ان کی ریاضی کی مہارت اتنی پختہ تھی کہ بغداد کے علماء جب کوئی سوال حل نہ کرسکتے تو ان سے رجوع کیا کرتے تھے۔ ان کا ریاضی کا علم انہیں وراثت میں حصے سے متعلق قوانین کی ماہر بنانے میں معاون ثابت ہوا۔برسبیلِ تذکرہ یہ کہتے چلیں کہ وہ ایک ماہرِ فقہ اور مفتیہ بھی تھیں۔ ابن کثیر کا کہنا ہے کہ شافعی مسلکِ اسلام پر ان کی گرفت اپنے دور کے سب سے بڑے علماء میں سے اہم تھی۔
تاریخِ انسانی کا جائزہ لیا جائے تو یہ ماہرِ ریاضی خاتون 9ویں یا 10ویں صدی عیسوی میں موجودہ بغداد میں علماء اور منصفین کے خاندان میں پیدا ہوئیں کیونکہ ان کے والد ابو عبداللہ الحسین ایک منصف تھے جنہوں نے بہت سی کتابیں تحریر کیں جن میں سے کتاب الفقہ اور صلاۃ الادائن مشہور ہیں۔ ان کے چچا عالمِ حدیث تھے اور ان کے صاحبزادے منصفِ وقت ابو حسین محمد بن احمد بن اسماعیل المحاملی اپنے فیصلوں اور ذہنی استعداد کے باعث مشہور ہوئے۔
شافعی طبقۂ فکر کی ماہر ستائتا المحاملی شیخ ابو علی جو صحابئ رسول ﷺ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے تھے، ان کے ہمراہ فتوے بھی دیا کرتی تھیں۔
ماہرِ فقہ و ریاضی ہونے کی حیثیت سے ستائتا المحاملی کو اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے اپنے وقت کے عظیم ترین مؤرخین سے خراجِ تحسین حاصل ہوا جن میں ابن جوزی، ابن الخطیب بغدادی اور ابن کثیر شامل ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ستائتا المحاملی سے موجودہ نسل ناواقف ہے اور ان کے حالاتِ زندگی کا قصہ تاریخ کی ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا گیا۔
انہوں نے عربی ادب، فقہ، تفسیر اور ریاضی کا علم یورپ سے 2 صدیاں قبل حاصل کیا اور 200 برس بعد جا کر یورپ نے ارجنٹیول سے ہیلوئز اور سالرنو سے ٹروٹا جیسی شخصیات پیدا کیں۔ تاریخی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ستائتا اپنے قانونی و ریاضیاتی علم میں مسلسل اضافہ کرتی رہیں اور انہوں نے توارث (انہیریٹنس) کے مسائل حل کیےجو اس دور کے جدید ترین تعلیمی میدان یعنی الجبرا سے تعلق رکھتے تھے۔
ریاضی کی تھیوری اور الجبرا میں ستائتا نے حقیقی اضافے کیے۔ وہ حساب یعنی ریاضی اور فرائدہ یعنی کامیاب جمع تفریق پر دسترس رکھتی تھیں جو آج بھی ریاضی کی تکنیکی شاخیں سمجھی جاتی ہیں اور ان کے دور میں کافی ترقی کرچکی تھیں۔ انہوں نے ایسی مساواتوں کو ایجاد کیا جنہیں دیگر ریاضی دانوں نے استعمال کیا، ان میں ایسی مساواتیں بھی شامل ہیں جو الجبرا میں ان کی قابلیت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ بے شک یہ مساواتیں تعداد کے اعتبار سے کم ملتی ہیں لیکن ان سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی ریاضیاتی صلاحیت عام جمع تفریق کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔
ذرا تصور کیجئے کہ ایک خاتون ماہرِ ریاضی کو فقہ اور ریاضیات میں اتنی زیادہ مہارت حاصل تھی کہ علمائے وقت اور معاشرے کے افراد ان سے نصیحت اور علم کیلئے رابطہ کرتے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں بھی خواتین کو علم حاصل کرنے میں کوئی قباحت مانع نہیں تھی۔ ستائتا کی جنس کی بجائے علم و ہنر ہی ان کی پہچان بنا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی مہارتوں کو اسلامی فقہ تک محدود نہیں رکھا بلکہ دینی موضوعات کے علاوہ دیگر دنیاوی علوم بھی حاصل کیے۔ ستائتا کسی آہنی قلعے میں بند عالمہ نہیں تھیں بلکہ انہوں نے اپنے علم کو حقیقی زندگی کے مسائل حل کرنے کیلئے استعمال کیا۔ وہ بنیادی طور پر اپنے معاشرے سے منسلک تھیں اور رہنمائی، علم اور اچھے کردار سے عوام الناس کیلئے ایک بہترین مثال ثابت ہوئیں۔
اگر ریاضی کی بات کی جائے تو ستائتا صرف ریاضیاتی مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیں بلک انہوں نے خود کو دیگر علماء کے مقابلے میں ایک بڑی عالمہ اور رہنما ثابت کیا۔ انہوں نے اس عمومی الجبرا اور سائنس کو بہتر بنانے میں کردار ادا کیا جسے آج ہم استعمال کررہے ہیں۔ اگر اس علم میں ان کا حصہ شامل نہ کیا جاتا تودنیا اتنا زیادہ علم نہ رکھتی جتنا کہ آج کے دور کے ہر انسان کو حاصل ہے۔
ہمارے لیے ستائتا کی زندگی ایک بڑی زبردست مثال ہے جس کے تحت ہم اپنی ذاتی زندگیوں کا احتساب کرسکتے ہیں اور ان کی زندگی سے سیکھ کر زندگی کے چیلنجز اور توقعات کو سامنے رکھتے ہوئے خود کو کسی ایک میدان تک محدود نہ کرتے ہوئے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہمیں علم ہر دستیاب ذریعے سے حاصل کرنا ہوگا اور یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ان کا علم ان کے اچھے کردار سے ابھر کر سامنے آیا کیونکہ ان دونوں خصوصیات کا تعلق ایک دوسرے سے بہت گہرا ہے۔ اگر ہم دوسروں کی عزت، ہمدردی، سخاوت اور انکسار کا مظاہرہ نہ کریں تو ہمارا علم بے کار ثابت ہوسکتا ہے۔ ستائتا ہم سب کیلئے ایک زندہ مثال ہیں جو ہمیں ہماری علمی حدود سے نکل جانے کا درس دیتی ہیں۔