اسلام آباد: عمران فاروق قتل کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے میٹروپولیٹن لندن پولیس کے 3 افسران کو گواہی کے لیے طلب کر لیا ہے۔
انسداد دہشتگری عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران برطانوی حکومت سے حاصل کیے گئے شواہد انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیے گئے، جن میں عمران فاروق قتل کی ویڈیو فوٹیج، آلہ قتل، فورنزک رپورٹس شامل تھیں۔
برطانوی حکام کی جانب سے فراہم کردہ شواہد میں قتل کے واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج، فرانزک اور پوسٹ مارٹم رپورٹ، برآمد ہونے والا میمو، تفتیشی افسران اور دیگر 23 گواہان کے بیانات شامل ہیں۔
پراسیکیوشن نے اے ٹی سی کو آگاہ کیا کہ 23 برطانوی گواہوں میں سے 3 عدالت میں پیش ہوکر اپنا بیان دے چکے ہیں جبکہ دیگر گواہوں کے بیانات ویڈیو لنک کے ذریعے ممکن ہوں گے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے عدالت میں کہا کہ تین گواہان ذاتی حیثیت میں پیش ہوکر جب کہ 20 ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرائیں گے جس پر عدالت نے تین برطانوی گواہان کو ذاتی حیثیت میں بیان قلمبند کروانے کے لیے طلب کر لیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ میٹرو پولیٹن پولیس لندن کے تین افسران 6 نومبر کو عدالت میں پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرائیں، بعد ازاں فاضل جج شاہ رخ ارجمند نے کیس کی مزید سماعت 6 نومبر تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی موت چاقو کے حملے کے نتیجے میں آنے والے زخموں کی وجہ سے ہوئی تھی۔
ایف آئی اے نے 2015 میں عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبہ میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا، اور اسی سال محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو بھی قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔