برقی ووٹنگ سسٹم اور پاکستان

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سن 1977 سے پاکستان میں ووٹ چوری اور الیکشن چوری کے الزامات بشمول ضمنی انتخابات، ہر قسم کے الیکشنز پر عائد ہوتے رہے ہیں۔ اس لیے وقت آگیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ووٹنگ کے متبادل نظام پر غور کرے۔بہت سے ممالک میں کاغذی بیلٹس اور ووٹوں کو اہلکاروں کے ذریعے گنوانا مفقود ہوتا جارہا ہے اور پاکستان کو ایسے نظام کی ضرورت ہے جو مناسب اور جعلسازی و دھاندلی کے عناصر سے پاک ہو۔ پاکستان میں جمہوری طریقۂ کار کو تقویت بہم پہنچانے کیلئے ہمیں ایک الیکٹرانک ووٹنگ نظام بروئے کار لانا ہوگا جو پہلے ہی بہت سے ممالک کے استعمال میں ہے۔

مختصر پس منظر

امریکا میں سن 1975ء میں پہلی بار الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا گیا جبکہ یہ ملک مکینیکل ووٹنگ مشینوں اور پنچ کارڈ ووٹنگ کا استعمال 60ء کی دہائی سے ہی کر رہا تھا۔ 90ء کی دہائی سے قبل الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال اتنا زیادہ عام نہیں ہوا تھا اور بیلجیئم، برازیل، بھارت اور نیدرلینڈ جیسے ممالک نے بعد ازاں یہ مشینیں زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا شروع کردیں۔

آپٹیکل اسکین کے ذریعے ووٹنگ کا نظام کمپیوٹر کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ بیلٹ پیپر پر کسی بھی ووٹر کے انگوٹھے کے نشان کو چیک کرسکے۔ برازیل، بھارت، وینزویلا اور امریکا جیسے ممالک اپنے الیکشنز میں ڈی آر آی (ڈائریکٹ ریکارڈنگ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم) کا استعمال کرتے ہیں اور ایسی ووٹنگ مشینیں استعمال کی جاتی ہیں جو ایک ہی جگہ ووٹوں کو نہ صرف جمع کرتی ہیں بلکہ ترتیب وار منظم انداز میں رکھتی بھی ہیں۔ نیدرلینڈز میں ڈی آر ایز کو بڑے پیمانے پر استعمال بھی کیا گیا تاہم بعد ازاں عوامی شکایات کے پیشِ نظر ترک کر دیا گیا۔

برطانیہ، ایستونیا اور سوئٹزرلینڈ کے علاوہ کینیدا کے میونسپل اور پارٹی پرائمری الیکشنز میں انٹرنیٹ ووٹنگ سسٹمز کو شہرت ملی اور انہیں انتخابات کے ساتھ ساتھ ریفرنڈم کیلئے بھی استعمال کیا گیا۔

مزید برآں ہائبرڈ سسٹمز بھی اپنا وجود رکھتے ہیں جن میں ایک برقی (ڈی آر ای کی طرح ٹچ اسکرین سسٹم پر مشتمل) مارکنگ ڈیوائس اور ایسی ٹیکنالوجی بھی موجود ہے جو ووٹر کے تصدیق شدہ کاغذات کی آڈٹ ٹریل شائع کرسکے جبکہ برقی تنظیم و ترتیب کیلئے علیحدہ مشین استعمال کی جاتی ہے۔

مجموعی طور پر 31 ممالک ماضی میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایمز) کا استعمال سیاسی انتخابات اور ریفرنڈم کیلئے کرچکے ہیں  جن میں سے 11 ممالک تاحال انہی مشینوں کا استعمال انہی مقاصد کیلئے جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ صرف 4 ممالک (برازیل، بھارت، بھوٹان اور وینزویلا) اپنے ہر قسم کے انتخابات کیلئے ان مشینوں کا استعمال کرتے ہیں۔

برازیل اور بھارت کی مثالیں

بھارت اور برازیل تقریباً 10 سال سے زائد عرصے سے ووٹنگ کا برقی نظام استعمال کررہے ہیں اور دونوں ممالک نے اس نظام سے بھرپور فائدہ بھی اٹھایا ہے۔ دونوں ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ کے استعمال کی مخالفت بھی کی جاتی ہے تاہم آج تک یہ مخالفت زیادہ پروان نہیں چڑھ سکی۔ یہ دونوں ممالک ہمسایہ ممالک کیلئے اپنی ووٹنگ مشینوں کی مارکیٹنگ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، کبھی کبھار وہ مشینیں مفت ادھار دینے کی پیشکش بھی کرتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے جنوبی امریکا اور ایشیاء میں ان مشینوں کے رجحان میں زیادہ اضافہ نہیں ہوسکا۔

برازیل

ماضی میں دھوکہ دہی اور ووٹرز کے کم ٹرن آؤٹ کے باعث برازیل میں انتخابات سبوتاژ ہوئے جس پر کارروائی کرتے ہوئے سپریم الیکٹورل کورٹ نے عالمی بینک کے ذریعے ایک ٹاسک فورس قائم کی جس کا کام ووٹرز کی جعلسازی روکنا اور ناخواندگی کی 30 فیصد شرح رکھنے والے ملک کیلئے سیاسی روایات کو ترویج دینا تھا اور مسئلے کا مجوزہ حل یہ نکلا کہ ملک بھر میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں متعارف کرائی جائیں۔

اگلے برس 1996ء میں ووٹنگ مشینوں کی جانچ پڑتال شروع ہوئی اور ملک بھر میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں عملی طور پر 2000ء میں رائج ہوئیں۔ برازیل وہ پہلا ملک بن گیا جس نے تمام انتخابات کیلئے ملک بھر میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا۔ الیکٹرانک ووٹنگ کامیاب بھی ثابت ہوئی کیونکہ اس سے دھوکہ دہی کم ہوئی اور ناخواندہ ووٹرز کو بھی ووٹ دینے کا حق ملا۔ برقی ووٹنگ سے قبل غلط ووٹوں کی شرح اوسطاً 40 فیصد ہوا کرتی تھی جو 2002ء تک کم ہو کر 7 اعشاریہ 6 فیصد رہ گئی۔

دراصل برازیل کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین 3 مراحل میں اپنا کام مکمل کرتی ہے جن میں ووٹرز کی شناخت، محفوظ رائے دہندگی اور جعلسازی کا خاتمہ شامل ہیں۔ سن 2012ء میں نئی بائیو میٹرک ووٹنگ مشین متعارف کرائی گئی جو ووٹرز کے فنگر پرنٹس کی پہچان کرسکتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو آڈٹنگ کیلئے ووٹنگ مشین کے پروگرامز تک رسائی حاصل ہے۔

ووٹوں کی گنتی کے عمل میں بھی برازیل کے الیکٹرانک ووٹنگ نظام نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ 1989ءکے صدارتی انتخاب میں ووٹوں کی گنتی میں 9 دن لگ گئے تھے لیکن 2018ء کے عام انتخابات میں ووٹوں کی گنتی محض 2 گھنٹے 21 منٹ میں مکمل کر لی گئی۔

ہمسایہ ملک بھارت کی مثال

ماضی میں 70ء کی دہائی تک  بھارت میں انتخابی عمل کو 3 بڑے چیلنجز کا سامنا رہا جن میں ناخواندہ ووٹرز کو بااختیار بنانا اور جعلسازی کا خاتمہ اہم چیلنجز تھے۔ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی بیلٹ باکس غائب ہوجایا کرتے تھے اور ووٹرز جب پولنگ اسٹیشنز کا رخ کرتے تھے تو انہیں یہ بتایا جاتا تھا کہ آپ تو ووٹ ڈال چکے ہیں۔ پولنگ اسٹیشنز پر حملے، دھاندلی کے الزامات اور جعلسازی تین بڑے اہم مسائل تھے۔ سن 1947ء سے منعقدہ ہر انتخاب میں نامناسب ووٹس امیدواروں کے مابین جیت ہار کے فرق سے زیادہ رہے۔

کسی حد تک الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال سے ان مسائل میں کمی آئی۔ 1982ء میں شمالی پراور اسمبلی کے کیرالہ حلقے کے 50 پولنگ اسٹیشنز میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال کی گئیں تاہم ان کے اطلاق اور اثرات کی جانچ پڑتال کی سست روی کے سبب ووٹنگ مشینوں کا استعمال آہستہ آہستہ آگے بڑھا۔ 2004ء کے عام انتخابات میں پہلی بار بھارتی حکومت نے ملک بھر میں ووٹنگ مشینیں استعمال کیں۔

دو آلات پر مشتمل الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں 6 وولٹ بیٹریز پر کام کرتی ہیں۔ ایک آلہ رائے دہندگی کا یونٹ ہے جبکہ دوسرا انتخابی افسر کے ذریعے چلایا جانے والا کنٹرول یونٹ کہلاتا ہے۔ پانچ میٹر کی ایک تار دونوں آلات کو جوڑنے کے کام آتی ہے۔ ووٹنگ یونٹ میں ہر امیدوار کیلئے ایک بٹن ہوتا ہے۔ ناخواندہ رائے دہندہ کی سہولت کیلئے علامات اسی بٹن کے ساتھ دکھائی جاتی ہیں۔

ووٹ چوری اور دھوکا دہی سے بچنے کیلئے مشینوں کو 1 منٹ میں زیادہ سے زیادہ 5 ووٹس کے اندراج کا اختیار دیا گیا ہے۔کوئی بھی ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد تمام ووٹس کی تعداد گنتی مراکز پر ظاہر ہوجاتی ہے۔ سن 2019ء کے عام انتخابات میں استعمال شدہ ووٹنگ مشینوں کی تعداد 22 لاکھ تھی۔

قبل ازیں سن 2012ء میں دہلی ہائی کورٹ اور بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلوں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے مطالبات پربھارتی الیکشن کمیشن (ای سی آئی) نے ای وی ایمز متعارف کرانے کا فیصلہ کیا جس میں ووٹر کا  تصدیق شدہ پیپر آڈٹ ٹریل (وی وی پی اے ٹی) سسٹم  بھی شامل تھا۔

نتیجتاً لوک سبھا الیکشن 2014ء کے پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر وی وی پی اے ٹی سسٹم کل 543 میں سے 8 پارلیمانی حلقوں میں متعارف کرایا گیا اور اب بھارت کے ہر اسمبلی اور عام انتخابات میں بھی وی وی پی اے ٹی سسٹم کا استعمال رائج ہے۔

پاکستان کیلئے تجاویز

الیکشن کمیشن آف پاکستان کو دھاندلی اور ووٹرز کے کم ٹرن آؤٹ کے مسائل پر قابو پانا ہوگا۔ ہمیں عام انتخابات کے ساتھ ساتھ ضمنی انتخابات میں بھی جمہوری روایات کی جدید بنیادوں پر ترویج کیلئے ووٹرز کی تعداد میں اضافے اور ووٹنگ کے عمل کو آسان کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی طرح انتہائی ناخواندہ ممالک مثلاً بھارت اور برازیل بھی آج الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی بائیو میٹرک کے ساتھ مربوط الیکٹرانک ووٹنگ مشینز (ڈی آر ڈی) کا استعمال کرنا ہوگا جو پاکستان جیسے ملک کیلئے آسان بھی ہوچکا ہے کیونکہ نادرا کے پاس ابتدا سے ہی کاغذی آڈٹ ٹریل کے ساتھ فنگر پرنٹس سے متعلق ڈیٹا موجود ہے۔ بائیو میٹرکس کے استعمال سے الیکٹرانک بیلٹ باکس میں ووٹ چوری اور جعلسازی کے خدشات کو کم کیا جاسکتا ہے۔

انتخابی عمل میں دھاندلی، دھوکہ دہی اور جعلسازی کو ختم کرنے کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کی تائید بلکہ وکالت کرنا ہوگی۔ کمیشن کو الیکٹرانک سسٹم کو سمجھنے اور چلانے کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی تاکہ مشینوں کو ہیکنگ سمیت جعلسازی کے دیگر حربوں سے بچایا جاسکے۔ اس ضمن میں سیاسی جماعتوں، حکمرانوں اور اپوزیشن سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کا خوف بھی دور کرنے کی ضرورت ہے۔ الیکٹرانک سسٹم کو اپنانے کیلئے حمایت کے حصول کیلئے الیکشن کمیشن کو تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی ضرورت ہے اور پھر الیکشن کمیشن کا اہم کام رائے دہندگان کو تعلیم دینا بھی ہوگا تاکہ عوام الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کو درست طریقے سے استعمال کرنا سیکھ سکیں اور صاف و شفاف رائے شماری ممکن بنائی جاسکے۔

آمریت کی طرف لوٹنے کی بجائے جمہوری اور انتخابی عمل پر پاکستانی عوام کا اعتماد بحال کرنا ہوگا جس کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں، حکمرانوں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کیلئے وقت آگیا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کو ایک چیلنج سمجھتے ہوئے اسے ملک بھر میں رائج کریں۔

یہاں وفاقی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی کاوشوں کی تعریف کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے پاکستان کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بلاشبہ فواد چوہدری نے ووٹنگ میں دھاندلی، دھوکہ دہی اور جعلسازی کا حل پیش کرنے میں پہل کی جو قابلِ ستائش اقدام ہے۔

سوال یہ ہے کہ ووٹ کو عزت دو کے نعروں کے ساتھ جمہوریت کی خود ساختہ چیمپین ن لیگ اور پی ڈی ایم جو ملک بھر میں آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں، کیا ووٹرز کی بائیو میٹرک تصدیق کے ساتھ الیکٹرانک ووٹنگ کی حمایت کریں گے؟  کیونکہ اگرکمیشن اور پی ڈی ایم نے اگلے عام انتخابات کیلئے ای ووٹنگ کے طریقۂ کار کی مخالفت کی تو پی ڈی ایم کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کی ساکھ بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

Related Posts