حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا کا رتبہ،وقار اور بلند مرتبہ دین اسلام کے لئے دی گئی قربانیوں کے باعث بہت بلند ہے، حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا دین اسلام کی پہلی خاتون شہید تھیں اور جب قیامت کے دن لوگوں کو پکارا جائے گا تو حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا پہلی شہید کے خاتون کے طور پر سامنے آئیں گی۔ اسلامی سیاق و سباق کی روشنی میں اگر دیکھا جائے حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا کی کہانی حضرت آسیہ (ع) کی طرح ہے، جنہیں فرعون نے شہید کیا تھا اور حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا کو اس وقت کے فرعون، ابوجہل نے قتل کیا تھا۔
حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا کا تعلق حبش کے قبیلے سے تھا، ان کی ولادت ایتھوپیا میں ہوئی تھی، حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے 20برس بڑی تھیں، وہ سیاہ فام تھیں جس کے باعث ان کے مکہ مکرمہ میں خاندانی تعلقات یا قبائلی روابط نہیں تھے،اس کا مطلب یہ تھا کہ انہیں قبائلی یا قرابتیوں سے کوئی تحفظ نہیں تھا۔ مکہ مکرمہ کے امیر اور طاقت ور لوگوں نے متعدد مواقع پر حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا کوان کے سیاہ فام ہونے کے باعث حقارت کا نشانہ بنایا۔
حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا کی شادی یاسر ابن عامر رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی، جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا اور ان کے اسلام قبول کرنے کے باعث انہیں قتل کردیا تھا، ان کا ایک بیٹا تھا جس کا نام عمار رضی اللہ عنہ تھا، جو مہاجروں یا تارکین وطن میں سے ایک تھا جو ہجرت کرکے مدینہ منورہ منتقل ہوگیا تھا۔
جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا شروع کیا تو حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا ان پہلے 7افراد سے ایک تھیں جنہوں نے آپﷺ کی دعوت کو قبول کیا، اور باضابطہ طور پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت کا عہد کیا، حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا کی اسلام سے محبت اس چیز سے ہی ظاہر ہوجاتی ہے کہ آپ نے ابتداء ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا۔
قریش اپنے چچا ابوطالب کی طاقت اور مرتبہ کی وجہ سے براہ راست پیغمبر (ص) کو نقصان نہیں پہنچا سکے، حالانکہ انہوں دوسرے طریقوں سے اپنا مشن جاری رکھا اور نقصان پہنچانے کے لئے کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا، اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی اپنے طاقتور قبیلے اور اپنے ذاتی اثر و رسوخ کے باعث بچ گئے تھے، تاہم عام مسلمانوں کو تشدد اور ظلم سے نہیں بخشا گیا۔
حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا ان کے شوہر یاسر رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے عمار رضی اللہ عنہ قریش کی بربریت کا باقاعدہ شکار تھے کیونکہ انہیں آسان اہداف کے طور پر دیکھا جاتا تھا کیونکہ وہ ایک امیر یا طاقت ور خاندان نہیں تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کہتے ہوئے تسلی دیتے تھے کہ، یاسر کے گھر والوں صبر کرو! آپ کی آخری منزل جنت ہے۔ جنت کا یہ وعدہ وہی تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کے انصار سے کیا۔
جب سمیہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ (ص) کے سامنے اسلام قبول کیا تو انہوں نے کہا، ”میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسولﷺ ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وعدہ سچا ہے۔” یہ جنت کا سچا وعدہ ہے جو حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا سے کیا گیا تھا۔ حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا کمزور، بوڑھی ِ، سیاہ فام، غلام عورت اپنے عزم اورپکے عقیدے کے باعث ابوجہل کے راستے کی دیوار بن گئی تھیں۔ ابوجہل یہ جانتا تھا کہ کوئی بھی حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا کی مدد کے لئے نہیں آئے گا، اس کے باوجود بھی انہیں مختلف انداز سے اذیتوں کا شکار بنایا گیا۔
جب بھی ابوجہل حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا پر تشدد کرتا، حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا اللہ کی یاد سے جواب دیتی تھیں، ابوجہل کا ارادہ نہ صرف یہ تھا کہ وہ حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا اور دوسروں کو تشدد کا نشانہ بنائے بلکہ وہ چاہتا تھا کہ لوگ اسلام کو ترک کردیں، بلکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعوذ باللہ برا بھلا کہیں،مگر حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا نے ابو جہل اور اس کے معبودوں کو لعنت بھیج کر رسول اللہ (ص) کی شان اور اللہ کا نام برقرار رکھا۔
ابوجہل اس قدر ظالم شخص تھا کہ حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا کو ان کے شوہر یاسر رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے عمار رضی اللہ عنہ کو ایک دوسرے کے سامنے اذیت دیتا تھا۔ ہم تصور نہیں کرسکتے کہ انہوں نے ایک دوسرے کو اذیت میں دیکھتے ہوئے درد کو کیسے برداشت کیا ہوگا۔
بچے کو باپ کے نام سے پکارنے کے عام رواج کے برخلاف، پیغمبر (ص) اپنی والدہ گرامی کی یاد کو زندہ رکھنے اور ان کی تعظیم کے لئے عمار رضی اللہ عنہ کو ابن سمیہ (سمیہ کے بیٹے)کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی گفتگو کے دوران حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا کے خاندان کے بارے میں بات کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حق کی فوج وہ ہے جس میں عمار ابن یاسر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔صفین کی لڑائی میں عمار رضی اللہ عنہ بھی اسلام کادفاع کرتے ہوئے شہید ہوگئے، انہیں بھی اپنے والدین کی طرف شہادت کا اعلیٰ مقام حاصل ہوگیا۔
حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا نے اسلام سے پہلے اور اس کے بعد ایک مشکل زندگی گزاری اور اس دنیا کی چمک دمک کا کبھی شکوہ نہیں کیا، لیکن حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا جنت الفردوس میں جانے والے ہماری امت کی پہلی خاتون ہیں۔ حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی اللہ عنہا اسلام کی عظمت اور بلندی کے دن دیکھنے کے لئے زندہ نہیں رہیں لیکن سمیہ رضی اللہ عنہ جنت میں اللہ کے وعدے کی شان دیکھنے کے لئے زندہ ہیں۔ حبش سے تعلق رکھنے والی ایک ضعیف، کمزور، سیاہ فام عورت کی اہمیت و منزلت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کی شان اس دنیا کے امتیازات کو نہیں جانتی ہے۔
میں نے اس مضمون میں جو کچھ بھی اچھا لکھا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہے جبکہ غلطیاں میری ہیں۔