موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثر ہونیوالوں ممالک میں پاکستان مستقل طور پر سب سے اوپر دس ممالک میں شامل ہے اور حالیہ موسمیاتی رسک انڈیکس 2020 میں بھی آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثر سے پاکستان کو آٹھواں متاثرہ ملک قرار دیا گیاہے۔
پاکستان آب و ہوا کی تبدیلی کی تحقیق میں پیچھے ہے جو بدقسمتی سے گزشتہ دو دہائیوں میں متعدد قدرتی آفات کے باوجود ملک میں تباہی مچا دینے کے باوجود پالیسی سازوں کی ترجیح کبھی نہیں رہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے دوبارہ تعمیر نو کا ایک بڑے منصوبے کا آغاز کیا ہے جس کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی لیکن معیشت سکڑ رہی ہے اور عالمی وبائی صورتحال کے ساتھ ہی پاکستان حال ہی میں خطرے میں کمی اور تخفیف کے منصوبوں کے لئے فنڈ دینے میں ناکام رہا ہے۔
مالی لاگت حیرت انگیزہے کیونکہ گذشتہ ایک دہائی میں آب و ہوا سے متاثرہ آفات کے سبب پاکستان کو 5 کھرب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم ایک جامع ماحولیاتی پالیسی اور قدرتی آفات کے لئے تیاری کا منصوبہ بنائیں۔
وزیر اعظم نے آب و ہوا میں تبدیلی کے خلاف کوششوں کے ایک حصے کے طور پر شہری جنگلات کا منصوبہ شروع کیا ہے۔
یہ جاپانی طریقہ کار کے تحت بنائے جائیں گے اور یہ بہت زیادہ مرغوب ، خود ساختہ اور دیکھ بھال سے پاک ہیں۔ حکومت لاہور میں ایسے 51 منصوبے لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یہ ایک بہت بڑا اقدام ہے اور اس سے دھواں جیسے عوامی صحت کو لاحق خطرات سے بچنے کے لئے ایک طویل سفر میں مدد ملے گی۔
ہمارے شہر کنکریٹ کاجنگل بن چکے ہیں اور ہمیں اب شہری جنگلات کی ضرورت ہے، اس منصوبے کو ملک کے دیگر حصوں میں وسعت دینا ہوگی۔
پاکستان آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات پر قابو نہیں پاسکتا کیونکہ وہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے لہٰذا حکومت کو اس طرح کے منصوبوں پر اپنے محدود وسائل کا استعمال کرنا پڑے گا۔ شہری جنگلات کوئی نیارجحان نہیں بلکہ یورپ میں بہت زیادہ ہیں اور لوگوں کو صحت مند بناتے ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سبز علاقوں سے قربت جسمانی تندرستی ، صحت مند طرز زندگی اور یہاں تک کہ نفسیاتی بہبود میں بھی بہتری کا باعث ہے۔ مزید اہم بات یہ کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے پیش نظر فطرت پر مبنی اس طرح کے حل ضروری ہیں۔
پوری دنیا میں صورتحال میں نمایاں طور پر تبدیلی آئی ہے اور پاکستان آب و ہوا میں بدلاؤ کو بطور مسئلہ دیکھ رہا ہے اور پالیسیاں بنارہا ہے۔
اس سے نئے مواقع بھی مہیا ہوتے ہیں کیونکہ نئے منصوبے بنانے سے روزگار کی فراہمی کے لئے موسمیاتی وزارت کے فنڈز تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
پاکستان کو ہر مواقع کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا میں ماحولیاتی رہنما بن کر ابھرنا چاہئے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے اور ہم سب کو متاثر کرتی ہے۔