میانمار میں حکومت کا تختہ الٹنے سے لے کر سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس تک

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
میانمار میں حکومت کا تختہ الٹنے سے لے کر سلامتی کونسل کے اجلاس تک
میانمار میں حکومت کا تختہ الٹنے سے لے کر سلامتی کونسل کے اجلاس تک

میانمار جسے برما بھی کہا جاتا ہے، یہاں گزشتہ روز عسکری قیادت نے سربراہِ مملکت آنگ سان سوچی اور دیگر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا جس کے بعد ملک کی کمان فوج نے سنبھال لی۔

آج اقوامِ متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل کا ہنگامی ورچؤل اجلاس طلب کیا گیا جس میں میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔ آئیے میانمار کے حوالے سے مختلف معلومات اور عالمی برادری کی طرف سے 21ویں صدی میں کی جانے والی اس فوجی بغاوت پر ردِ عمل کا جائزہ لیتے ہیں۔

میانمار کے متعلق بنیادی معلومات

جنوب مشرقی ایشیاء کے سرحدی ممالک کے قریب واقع برما کے ہمسایہ ممالک بھارت، چین، بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ ہیں۔ برما میں 2014ء میں جب مردم شماری کی گئی تو پتہ چلا کہ یہ ملک صرف 5 کروڑ 10 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔

میانمار کا رقبہ 6 لاکھ 76 ہزار 578 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کا دارالحکومت نیپیداؤ ہے۔ قیامِ پاکستان کے اگلے سال 4 جنوری 1948ء کو برما نے بھی برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔

ملک کے مجموعی طور پر 7 صوبے اور 7 ہی ڈیژنز قائم کیے گئے ہیں جن میں شان، کایا، کچھین، ارکان، کرین اور مون شامل ہیں۔ بدھ مت برما کا سرکاری مذہب ہے جو برمی قوم نے 11ویں صدی عیسوی میں اختیار کیا تھا۔

سن 1287ء میں قبلائی خان نے برما پر حملہ کرکے ملک کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا۔ شان قبیلے کے افراد اس پر حکومت کرنے لگے۔ 16ویں صدی عیسوی میں ٹنگو خاندان نے یہاں حکومت کی۔ 18ویں صدی میں الونگ پھیہ نے ہندوستان پر لشکر کشی کی اور ملک وسیع کر لیا۔

بعد ازاں سن 1826ء میں برما کے علاقے ارکان اور تناسرم برطانوی بھارت کا حصہ بن گئے اور برما کو ان سے دستبردار ہونا پڑا۔ 1852ء میں وسطی برما اور 1885ء میں بالائی برما کے بعد 1890ء میں شان اسٹیٹ پر بھی انگریز قابض ہو گئے جس کے بعد انگریزوں سے آزادی کیلئے برما تقریباً 58 سال تک لڑتا رہا، آزادی 1948ء میں ملی۔ 

آنگ سان سوچی کون؟ 

سربراہِ مملکت آنگ سان سوچی جن کا تختہ گزشتہ روز الٹ کر گرفتار کر لیا گیا، ان کی حیثیت برما میں بے حد اہم سمجھی جاتی ہے جو آزادی کے ہیرو جنرل آنگ سان کی صاحبزادی ہیں اور ملک میں سالہا سال سے نافذ آمریت کے خلاف سب سے بڑی آواز بنیں۔

تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ آنگ سان جو آنگ سان سوچی کے والد تھے، برما کی آزادی میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود نہ صرف اقتدار بلکہ زندگی سے بھی محروم ہوگئے۔ 1947ء میں ملک کو اقتدارِ اعلیٰ کی منتقلی کے دوران انہیں قتل کردیا گیا تھا اور اس وقت آنگ سان سوچی صرف 2 سال کی تھیں۔

بھارت روانگی، والدہ کی سفارت اور تعلیم

والد کے قتل کے بعد بھی آنگ سان سوچی کے خاندان کو قومی سطح پر بے حد پذیرائی حاصل تھی، شاید یہی وجہ ہے کہ سن 1960ء میں آنگ سان سوچی اپنی والدہ کے ہمراہ بھارت جا پہنچیں اور ان کی والدہ بھارت میں برما کیلئے سفیر مقرر کی گئیں۔

چار سال بعد آنگ سان سوچی نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے سیاست، فلسفہ اور معاشیات کی تعلیم حاصل کی اور شریکِ حیات مائیکل ایرس سے ملاقات بھی اسی دور میں ہوئی۔ بعد ازاں آنگ سان سوچی کچھ عرصہ بھوٹان اور جاپان میں بھی رہ چکی ہیں۔

برطانیہ کے بعد برما واپسی 

باپ کے اندوہناک قتل کے باوجود آنگ سان سوچی سیاسی نظریات اور ملکی سوچ کو برطانیہ میں رہائش کے باوجود اپنے ذہن سے کھرچ کر نہ پھینک سکیں۔ سن 1988ء میں والدہ کی بیماری کے  باعث آنگ سان سوچی بھی برما جا پہنچیں۔

اسی دوران ایک موقعے پر تقریر کرتے ہوئے آنگ سان سوچی نے ملک میں مسلسل عشروں سے جاری عسکری حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ برما میں ہورہا ہے، میں اس سے لاتعلق نہیں رہ سکوں گی جس کے بعد جمہوریت کیلئے عملی جدوجہد شروع ہوئی۔ 

جمہوریت کیلئے جدوجہد اور گرفتاری 

یہ 90ء کی دہائی تھی جب آنگ سان سوچی ملک بھر میں پر امن سیاسی جدوجہد شروع کرچکی تھیں اور ان کا مقصد ملک میں جمہوریت کی بحالی اور فوج کے ہاتھوں سے اقتدار چھیننا تھا۔ فوجی حکمرانوں نے اندھا دھند طاقت کا استعمال کیا اور جدوجہد بظاہر ناکام ثابت ہوئی۔

گرفتاری اور نااہل قرار دئیے جانے کے باوجود سن 1990ء کے انتخابات میں آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت نے بے مثال کامیابی حاصل کرکے برمن فوج کو حیران کرکے رکھ دیا۔

اگلے سال 1991ء میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی کامیابی کو فوج نے مانے سے انکار کرتے ہوئے آنگ سان سوچی کو دوبارہ گرفتار کر لیا۔ اسی عالم میں آنگ سان سوچی امن کا نوبل اعزاز پانے میں کامیاب ہوگئیں۔

تقریباً 20 سال تک آنگ سان سوچی انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں، پھر بھی برما کے لوگ انہیں امید کی آخری کرن سمجھتے رہے۔ سن 1995ء میں آنگ سان سوچی رہا ہوئیں لیکن ان پر پابندیاں عائد کردی گئیں۔ 2009ء میں بھی انہیں 18 ماہ کیلئے قید کردیا گیا۔

روہنگیا مسلمانوں پر بد ترین تشدد اور آنگ سان سوچی 

مسلمانوں پر روہنگیا میں جو ظلم و ستم ڈھایا گیا اس پر دنیا بھر میں آوازیں اٹھائی گئیں۔ سن 2016ء میں آنگ سان سوچی پر بھی یہ الزام لگا کہ وہ سربراہِ مملکت کی حیثیت سے روہنگیا مسلمانوں کی حفاظت میں ناکام رہی ہیں۔

لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے ریاستی جرائم کے ماہرین نے متنبہ کیا کہ آنگ سان سوچی روہنگیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کو جائز قرار دے رہی تھیں۔ آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی عصمت دری، قتل و غارت اور املاک کی تباہی پر فوج کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

آج سے تقریباً 4 سال قبل برمی فوج نے وحشیانہ ظلم و بربریت کے ریکارڈز توڑ دئیے جس کے نتیجے میں تقریباً 7 لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کرگئے۔ میانمار میں رہنے والے 6 لاکھ روہنگیا باشندوں کی شہریت تک منسوخ کردی گئی۔ 

اعزاز سے محرومی 

گزشتہ برس 11 ستمبر 2020ء کو میڈیا نے یہ خبر جاری کی کہ روہنمگیا مسلمانوں کے خلاف جرائم کے نتیجے میں یورپی پارلیمان نے برمی سربراہِ مملکت آنگ سان سوچی کو سخاروف پرائز کمیونٹی سے ہٹا کر اعزاز سے محروم کردیا۔

سخاروف ایوارڈ لسٹ سے آنگ سان سوچی کے نام کو خارج کردیا گیا۔ یورپی پارلیمان نے یہ اقدام آنگ سان سوچی کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جرائم کے اعتراف کے بعد اٹھایا۔ یورپی یونین پارلیمان نے کہا کہ میانمار کی اسٹیٹ کونسلر کو انسانی حقوق کی خدمات کیلئے کسی بھی انعامی سرگرمی کیلئے دعوت نہیں دی جائے گی۔

فن لینڈ کی رکنِ یورپی پارلیمان ہائیڈی ہوٹالا نے کہا کہ جسے ہم جمہوریت کا مجسمہ سمجھ رہے تھے، وہ نہ صرف روہنگیا مظالم پر خاموش رہیں بلکہ انہوں نے بے جا ظلم کی حمایت کرکے ہمارے تحفظات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ 

اقتدار سے محرومی اور عالمی برادری کا ردِعمل

فی الحال عالمی برادری کا آنگ سان سوچی کی اقتدار سے محرومی پر سب سے بڑا ردِ عمل تو یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے آج ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔ قبل ازیں بے شمار عالمی رہنما اور سربراہانِ مملکت برمی فوج کے اقدام کی شدید مذمت کرچکے ہیں۔

نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے میانمار میں فوجی بغاوت اور اقتدار پر قبضے کی مذمت کرتے ہوئے جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کیا اور برما پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی تک دے ڈالی۔ برطانیہ نے بھی مطالبہ کیا کہ آنگ سان سوچی سمیت گرفتار کیے گئے دیگر برمی رہنماؤں کو فوج فوری طور پر رہا کرے۔

Related Posts