پاکستان میں 24 جنوری کے روز قومی ائیر لائن (پی آئی اے) کے پائلٹ نے فضا میں اڑتے ہوئے یو ایف او کی ویڈیو شیئر کی جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گئی جسے اڑن طشتری قرار دیا گیا تھا لیکن ایک پاکستانی سائنسدان نے اس کی تردید کردی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے خلائی سائنسدان جاوید سمیع نے فضا میں معلق شے کو اڑن طشتری کی بجائے لینٹیکلر کلاؤڈ قرار دیا، آئیے سب سے پہلے یہ جانیں کہ یو ایف او سے مراد کیا ہے؟ پھر ہم کراچی میں نظر آنے والے لینٹیکلر کلاؤڈ پر تحقیق کریں گے تاکہ یہ علم ہوسکے کہ حقیقت کیا ہے۔
یو ایف او کیا ہے؟
اَن آئیڈنٹیفائیڈ فلائنگ آبجیکٹس(یو ایف او) کو ہم اردو میں اڑن طشتریاں کہتے ہیں جن کا نظارہ بنی نوع انسان کیلئے کوئی نئی بات نہیں رہی۔ انگریزی میں اس کیلئے جو اصطلاح یو ایف او استعمال کی جاتی ہے، اس کا اردو ترجمہ غیر شناخت شدہ اُڑنے والی اشیاء ہوسکتا ہے یعنی ایسی اڑنے والی چیزیں جنہیں آج تک شناخت نہیں کیا جاسکا۔
آج بھی انسان جب اڑن طشتری کے بارے میں کوئی بات سنتا ہے تو وہ حیران ہو کر تحقیق میں لگ جاتا ہے کہ یہ کیا ہے؟ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کی شناخت واقعی آج تک کوئی نہیں کرسکا۔ اگر کی ہوتی تو کیا ہے کے سوال سے آگے نکل کر کیوں ہے اور اس کا موجد کون ہے جیسے سوالات پر توجہ دی جاسکتی۔
امریکا میں 1947ء میں نظر آنے والی اڑن طشتریاں
قیامِ پاکستان کے سال 1947ء میں امریکی کاروباری شخصیت کینتھ آرنلڈ نے 9 اڑن طشتریوں کو فضا میں محوِ پرواز دیکھا جب وہ اپنے نجی طیارے میں سفر کر رہے تھے۔
کینتھ آرنلڈ کے بیان کے مطابق وہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں محوِ پرواز تھے جب انہیں 9 اڑن طشتریاں ایک ساتھ فضا میں اڑتی نظر آئیں، تاہم زیادہ تر لوگوں نے ان کے دعوے کو حقیقت پر مبنی نہیں سمجھا۔
پینٹا گون کی اڑن طشتریوں پر بے نتیجہ تحقیق
امریکی دفاعی ادارے پینٹا گون نے سن 2007ء میں ایک خفیہ پروگرام بھی شروع کیا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ اڑن طشتریاں بار بار کیوں نظر آتی ہیں؟ کیا اس کے پیچھے کوئی خلائی مخلوق ہے؟ کیونکہ دنیا کی کوئی بھی قوم اڑن طشتری کی ایجاد کا سہرا اپنے سر لینے کو تیار نہیں۔
سن 2012ء میں پینٹا گون نے فنڈز کی قلت کے باعث یہ منصوبہ بند کردیا۔ یو ایف او پر تحقیق کے سابق انچارج نے کہا کہ جو شواہد میرے مشاہدے میں آئے، ان کی بنیاد پر میں یقین کرسکتا ہوں کہ انسان اِس دنیا میں اکیلا نہیں ہے۔
اڑن طشتریوں پر نیوزی لینڈ کی عسکری دستاویزات
نیوزی لینڈ کی فوج نے ایسی سیکڑوں دستاویزات سن 2010ء کے دوران عام کیں جن میں اڑن طشتریاں دیکھنے کے دعویداروں، مختلف قصے کہانیوں اور مشاہدات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
یہی نہیں، بلکہ 1954ء سے لے کر 2009ء تک کے واقعات پر مشتمل دستاویزات میں یہ نہ صرف دیکھی گئی اڑن طشتریوں کے خاکے ہیں بلکہ خلائی مخلوق کی مبینہ تحریروں کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ ایک اہم واقعہ 1978ء کا ہے جب کیکورا قصبے میں کیمرے کی آنکھ نے عجیب و غریب روشنیاں دیکھیں۔
عالمی شہرت یافتہ کیکورا قصبے کے واقعے پر فوجی رپورٹ میں تبصرہ کرتے ہوئے دیکھی گئی روشنیوں کو اڑن طشتریوں کی بجائے کشتیوں پر نصب روشنیوں کا بادلوں میں بننے والا عکس یا پھر زہرہ کا غیر معمولی منظر قرار دیا گیا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نیوزی لینڈ فضائیہ کے ترجمان کیوتماریکی نے بتایا کہ ہماری فوج اتنے وسائل نہیں رکھتی کہ ہم اڑن طشتریوں پرتحقیقات کریں، اور ہم دستاویزات کے مواد پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔
واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کی فوج کی طرف سے یہ دستاویزات 2000 صفحات پر مشتمل تھیں جن میں عوام، فوج اور ہوا بازوں کے ایسے بیانات کو جگہ دی گئی جن میں وہ اڑن طشتریاں دیکھنے کا دعویٰ کرتے نظر آئے۔ یہ رپورٹ نیوزی لینڈ کے قومی آرکائیو میں آج بھی موجود ہے۔
پراجیکٹ بلو بک اور کینیڈا کی اڑن طشتریاں
ریاستہائے متحدہ امریکا میں ایک اور پراجیکٹ بلوبک شروع کیا گیا جس میں 1952ء سے لے کر 1966ء تک 12 ہزار واقعات رپورٹ کیے گئے جن میں دعویٰ کیا گیا کہ امریکی شہر نیواڈا کے ایریا 51 میں سب سے زیادہ اڑن طشتریاں دیکھی گئیں۔
بعد ازاں امریکی حکومت نے ایک پینل تشکیل دے کر مختلف افراد کے انٹرویو کیے اور ویڈیو فلمز بھی دیکھیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 90 فیصد واقعات میں شہابِ ثاقب، ستارے، طیارے یا ائیر بلونز کو اڑن طشتریاں سمجھ لیا گیا تھا۔ بلوبک نامی اس پراجیکٹ کی رپورٹ کے ایک حصے کو خفیہ رکھنے کے باعث عوام میں شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا۔
ایڈوانسڈ ایوی ایشن تھریٹ آئیڈنٹیفیکیشن پروگرام کے تحت پینٹا گون نے 2007ء سے لے کر 2012ء تک اڑن طشتریوں کے ایسے ہی ہزاروں واقعات پر جو تحقیق کی تھی، اسے 2017ء میں سامنے لایا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ امریکا میں حکومت نے اڑن طشتریوں کے دھاتی ٹکڑے حاصل کیے ہیں جن پر مزید تحقیق ہوگی۔ صرف امریکا یا نیوزی لینڈ میں ہی نہیں بلکہ اڑن طشتریاں دیکھنے کے واقعات دیگر ممالک میں بھی ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
کینیڈا میں بھی ایسے 750 واقعات پر تحقیق کی گئی جن میں سیکڑوں افراد نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اڑن طشتریاں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں، لیکن آج تک پاکستان سمیت دنیا کی کسی بھی حکومت نے اڑن طشتریوں کو حقیقت قرار نہیں دیا۔
پاکستان کی اڑن طشتری اور خلائی سائنسدان کی وضاحت
خلائی سائنسدان جاوید سمیع نے پاکستان میں رواں ماہ محوِ پرواز یو ایف او کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے اس کے اڑن طشتری ہونے کی تردید کی اور کہا کہ یہ ایک بادل تھا جسے ہم لینٹیکلر کلاؤڈ قرار دے سکتے ہیں۔
جاوید سمیع کے مطابق کمرشل پائلٹس کیلئے لینٹیکلر کلاؤڈ کا نظارہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب جہاز 500 سے 900 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر اڑ رہا ہو، ایسے میں آپ تصویر کھینچیں یا ویڈیو بنائیں تو اس کی ہیئت پھیل سکتی ہے۔
بادل یا اڑن طشتری، حقیقت کیا ہے؟
اگر ہم لینٹیکلر کلاؤڈ کی تعریف پر غور کریں اور ان کی تصاویر پر غور کریں تو محسوس یہی ہوتا ہے کہ پاکستان میں نظر آنے والی اڑن طشتری یقیناً کوئی بادل ہی تھا کیونکہ یہ ایسے بادل ہوتے ہیں جو ساکن رہ کر بعض اوقات اڑن طشتری جیسی شکل تشکیل دیتے ہیں۔
تاہم ہزاروں افراد نے اڑن طشتری دیکھنے کے جو دعوے کیے ہیں، وہ سب جھوٹ نہیں ہوسکتے۔ ہر جگہ اور ہر ملک میں لوگوں نے اڑن طشتریوں کی جگہ یقیناً بادل تو نہیں دیکھے۔ یقیناً ایسی کوئی نہ کوئی مخلوق ضرور موجود ہے جو اڑن طشتریاں زمین پر بھیج کر اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتی ہے۔ اب یہ مخلوق کیا ہے اور اڑن طشتریاں پکڑی کیوں نہیں جاتیں، اس پر بنی نوع انسان کو مزید تحقیق و تفتیش کی ضرورت ہے۔