کثیر الجماعتی اپوزیشن اتحاد کے پہلے موقف کے برخلاف جو حکومت کو استعفے بھجوانے کے لئے پرعزم ہے پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے بجائے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ یقیناً پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی راہ کا اختتام ہے۔
پیپلز پارٹی کا فیصلہ غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ پی پی شروع سے ہی الیکشن نہ لڑنے کے معاملے پر ہچکچا ہٹ کا شکار تھی ، پیپلزپارٹی کو یہ خدشہ تھا کہ میدان خالی چھوڑنے کی صورت میں تحریک انصاف اکثریت حاصل کرلے گی اور پی ٹی آئی اکثریت حاصل کرنے کے بعد18 ویں ترمیم کو نشانہ بنا سکتی ہے جسے پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ پیپلز پارٹی مریم نواز اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے برخلاف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصادم سے بھی گریزاں تھی جنہوں نے ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے سینیٹ انتخابات میں حکومت کو چیلنج کیاجبکہ وزیر اعظم نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر استعفے پیش کیے گئے تو فوری طور پر قبول کرلئے جائیں گے اور حکومت کسی دباؤ کو قبول نہیں کرے گی۔
ایسا لگتا ہے کہ مجوزہ لانگ مارچ بھی روک دیا گیا ہے ، ابھی کم از کم پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ نواز شریف واپس آجائیں اور جلسے کی قیادت کریں تاہم اس بات کا امکان نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائدجلد واپس آئینگے اور اس طرح اسلام آباد مارچ کرنے کی حکمت عملی فی الوقت غیر واضح ہے۔
شہباز شریف حکومت سے مذاکرات کے حق میں ہیں۔ اگر انہیں رہا کردیا گیا اور بات چیت کی پیشکش کی گئی تووہ پی ڈی ایم کے لئے مشکل پیدا کرسکتے ہیں ، مسلم لیگ (ن) بھی تمام استعفے جمع کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے کیونکہ پارٹی کے بہت سے رہنماؤں نے ان کا ساتھ نہیں دیا ۔
پیپلز پارٹی کے پیچھے ہٹنے کے ساتھ مریم نواز اور مولانافضل الرحمان بھی زیادہ دیر ساتھ نہیں رہ سکتے اور ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کا سفر اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے دوسری طرف جے یو آئی (ف) کے سربراہ قانونی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں کیونکہ نیب نے انہیں ایک سوال نامہ بھیجا ہے اورنیب جلد ہی ان کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے۔ اس سے توقع کی جارہی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کومزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور پارٹی سے نکالے جانے والے متعدد رہنماؤں نے اپنی الگ پارٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کرکے ایک نیا چیلنج کھڑا کردیاہے۔
اپوزیشن کے درمیان عدم اتفاق سے وزیر اعظم عمران خان کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے جو پہلے ہی اپوزیشن کے دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اگرچہ پی ڈی ایم اپنا احتجاج جاری رکھے گی لیکن اس کا حکومت پر کوئی اثر پڑنے کا امکان نہیں ہے۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا دوسری جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کی پیروی کریگی یااپنے فیصلوں پر قائم رہے گی۔