جج ویڈیواسکینڈل:نوازشریف کی سپریم کورٹ کے فیصلےکےخلاف نظرثانی کی اپیل

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

nawaz sharif
nawaz sharif

اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف نے جج ویڈیو اسکینڈل میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل  دائر کردی۔

سپریم کورٹ میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے یہ درخواست دائر کی گئی ہے، جس میں جج ارشد ملک اور دیگر کو فریق بنایا گیا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیاگیا ہےکہ ہمیں نوٹس کیے بغیر اور سنے بغیر فیصلہ دیا گیا، ہمارا مؤقف لیے بغیر عدالت نے معاملے کے پیرا میٹرز طے کردیے، ویڈیو اسکینڈل کے معاملے پر ہمارا مؤقف بھی سنا جائے، سپریم کورٹ نے ویڈیو اسکینڈل میں جو فیصلہ دیا، اُس سے ہمارا حق متاثر ہوا، لہٰذا انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہمارا موقف سنا جائے۔

عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ ہمارا موقف سن کر سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے جبکہ ساتھ ہی نظرثانی اپیل میں نواز شریف نے اپنے خلاف عدالتی مشاہدے پر نظرثانی کی بھی استدعا کی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ  اسلام آباد ہائی کورٹ کو اختیار ہے کہ وہ اس ویڈیو کے منظرِ عام آنے کے بعد جج ارشد ملک کی طرف سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو دی جانے والی سزا کا از سر نو جائزہ لے۔

جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس میں ناصر بٹ، ناصر جنجوعہ، میاں طارق، خرم شہزاد یوسف، سلیم رضا اور مہرغلام جیلانی مرکزی ملزم ہیں۔

6 جولائی 2019 کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ جاری کی تھی۔

ویڈیو میں مبینہ طور پر  یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔

تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی۔ فرضی اور جھوٹی قرار دیا تھا۔اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔

بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے ان جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔

23 اگست کو سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ایف آئی اے پہلے ہی ویڈیو کی تحقیقات کر رہا ہے اس لیے سپریم کورٹ فی الحال مداخلت نہیں کر رہی۔

Related Posts