اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں میڈیا سنسر شپ ایک بد نما داغ ہے،قومی اداروں اور ریاستی اداروں پر کسی بھی قسم کی تنقید پر سخت پابندی عائد ہے، اب یہ کوشش کی جارہی ہے کہ سوشل میڈیا اور دوسرے آن لائن پلیٹ فارمرز پر موجود مواد کو بھی کسی نہ کسی طرح دبا دیا جائے یا روک دیا جائے۔
اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ فلم اور ٹی وی انڈسٹری کے لئے تخلیقی جگہیں بتدریج کم ہوتی جارہی ہیں۔ پیمرا نے قوانین اور ضوابط طے کیے ہیں لیکن معاشرے کے اصولوں کے تحت جو چیز قابل قبول ہے اس پر غور کیا جانا چاہئے، اس کی حدود واضح بیان نہیں کی گئیں، اس لئے بہت سے ہدایت کار سوچتے ہیں کہ آیا جو چیز یہ بنائیں گے اس کو نشر کیا جائے گا بھی یا نہیں۔
ستمبر میں، پیمرا نے دو ڈرامے(اشقیہ)اور(پیارے کے صدقے)کے نشر ہونے کے کافی دن بعد اس پر دوبارہ پابندی عائد کردی۔ ہدایتکار اور پروڈیوسر سنسر شپ کے بدلتے ہوئے مذاج کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
جوہدایت کار کسی بھی بولڈ یا ممنوع موضوع کو پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کو بہت جلد ہٹا دیا جاتا ہے، یا روک دیا جاتا ہے، انٹرنیٹ ریاستی سنسر شپ کی رسائی سے باہر تھا‘ لیکن اس پر بھی (میڈ ان پاکستان) مواد تک محدود تھا، ہندوستان کی اسٹریمنگ سائٹ زی 5 پر ایک سیریز ”چوڑیلز“ نشر کی گئی تھی جس میں خواتین کو آزاد خیال کرداروں میں دکھائے جانے پر تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا، اس پروگرام میں ہمارے معاشرے میں ہونے والی دھوکہ دہی دکھائی گئیں سینسر شپ کے ذریعے اسے بند نہیں کیا گیا۔
پاکستانیوں کو اپنا مواد آن لائن دیکھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس شو کو پاکستانی ناظرین کے لئے اسٹریمنگ سائٹ نے ہٹایا تھا لیکن آخر کار اسے بحال کردیا گیا۔ اب جب کہ اسٹیٹ بینک نے ہندوستان کے کسی بھی مواد کے تمام کریڈٹ کارڈ کی ادائیگی روک دی ہے۔ یہ ذاتی آزادی کا نادانستہ حملہ ہے اور اس کی مذمت کی جانی چاہئے۔ سنسر شپ کے اداروں کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ انٹرنیٹ پر مواد کو دبانے کی کسی بھی کوشش سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچے گا اور لوگ ان تک رسائی کے متبادل راستے تلاش کریں گے۔
ہدایت کاروں کے پاس اپنی صلاحیتوں کو دبانے کے بجائے حقائق کو ظاہر کرنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا ہے۔ حکومت، وزارت انسانی حقوق اور یہاں تک کہ سی سی آئی کی جانب سے کلیئر کیے جانے کے باوجود فلم ”زندہ تماشا“ کو اب بھی نشر ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ بہت سارے فلمی ہدایت کار سنسر شپ کے قوانین سے بچنے کے لئے اپنا مواد بیرون ملک سے جاری کرنے پر غور کررہے ہیں یا گھٹن کا شکار ماحول سے مکمل طور پر آگے بڑھنے کے لئے کوشاں ہیں۔