پاکستان کی گرم اور روز بروز سیاست میں ہلچل نے جہاں ملک میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو آمنے سامنے کھڑا کردیا ہے۔
وہاں صوبہ سندھ میں ریلیوں کی سیاست عروج پر ہے۔ پی ٹی آئی ، پی پی پی ، ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی اور قوم پرست جماعتیں کراچی پر پنجہ آزمائی کرچکی ہیں ۔ کے الیکٹرک ، پانی، بجلی، سیوریج، ٹوٹی سڑکیں، اجڑا کراچی ، طوفانی بارشوں کی تباہی کے بعد کراچی سے ہمدردی میں وفاق اور صوبہ دونوں متحرک نظر آئے۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے این ڈی ایم اے کو کراچی بھیجا جو نالوں کی صفائی میں کلیدی کردار ادا کرکے گئے۔ اسوقت بھی این ڈی ایم اے کام کر رہی ہے۔ نالوں سے تجاوزات ہٹنی ہیں اور نالوں کو انکی اصل شکل میں واپس آنا ہے۔ عمران خان 1100ارب کے پیکیج کا اعلان کرکے گئے ہیں جسکے بعد کراچی کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی لیکن پی پی پی اور وفاق نے رقم پر لفظی جنگ شروع کردی۔
بالآخر وفاقی وزیر اسد عمر نے یہ کہ کر بحث ختم کی کہ سندھ کے 800ارب ہی صحیح لیکن کام شروع کریں ۔ نمائشی طور پر نالوں پر سے تجاوزات کا آپریشن شروع کیا گیا لیکن معاملہ ان دنوں ٹائیں ٹائیں فش نظر آتا ہے۔ این ڈی ایم اے اور لوکل ادارے نالوں پر مارکنگ کر رہے ہیں ۔ لیکن تجاوزات جو گھروں کی شکل میں ہیں ۔ سندھ حکومت کے اعلان کے باوجود ان کے لئے متبادل کی کوئی جگہ نظر نہیں آرہی نہ پیش رفت نظر آتی ہے، اس لئے تجاوزات کا ہٹنا ناپید نظر آتا ہے۔
این ڈی ایم اے کو مکمل اختیارات ملنے چاہئیں ۔ وہ اس پر فیصلہ کن کام کرسکے۔ پاکستان کی ترقی اور اسکی خوشحالی اور اسکا استحکام ہر محب وطن شہری کی خواہش ہے اور وہ ملک کی حفاظت کے لئے ہر اول دستہ کا کردار ادا کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار بھی ہیں ۔ لیکن نواز شریف اور پیپلزپارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کے لئے سوچ اور الفاظ کی ادائیگی نے اپوزیشن سے زیادہ ملک کی سلامتی کے حوالے سے سوالات پیدا کردیئے ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے آمنے سامنے آچکے ہیں اور حد انتہا یہ ہے کہ ایک شہری کے ذریعے 43ن لیگی ٹاپ لیڈر شپ بشمول صدر آزاد جموں کشمیر کی بغاوت کی ایف آئی آر بشیر نامی شخص کے ذریعے درج کرادی گئی ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح سے شروع ہونے والے غداری کے سرٹیفکیٹ سیاست دانوں کے لئے پاکستان کے قیام سے آج تک بانٹے جا رہے ہیں۔
انہی وجوہات پر ہم مشرقی پاکستان سے محروم ہوئے۔ سیاست میں میانہ روی کی جگہ شدت پسندی نے ملک کی سیاست کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ عمران خان جتنے مدبر اور ذی شعور سیاست داں گردانے جا رہے تھے انکے مشیران اور رفقاء انہیں شدت پسند اور انتقامی کاروائی میں شدت پسند سیاست دان بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اپوزیشن کی سیاست کو تحریک انصاف کی انتقامی سیاست نے دوام بخش دیا ہے۔
سارا دن پی ٹی آئی کے وزراء عوام کی خدمت کے بجائے اپوزیشن سے مقابلہ کرنے اور انہیں نیچا دکھانے کے لئے پریس کانفرنس کرتے رہتے ہیں۔ کاش وہ اپنی حکومت کے اچھے کاموں کی تشہیر اور کام پر اتنی محنت صرف کرتے تو نئے پاکستان کو حقیقت کے رنگ بھر دیتے۔ لیکن ملک کو مہنگائی اور قرضوں معاشی بد حالی سے نکالنے اور مثبت سمت میں لانے کے بجائے پی ٹی آئی کے وزراء عمران خان کو نئے نئے امتحانوں میں ڈالتے رہتے ہیں۔
اپوزیشن کو ایندھن دینے کا کام یہ مشیران اور وزراء کر رہے ہیں،ادھر سندھ میں بھی پی ٹی آئی اور پی پی پی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کام کو الجھانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ گیارہ سو ارب کو عملی خرچ دیکھنے کی خواہش کو عوام کا حسین خواب بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اب پیپلزپارٹی کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ بھی پی ٹی آئی کے اتحادی ہونے کے ناطے پی پی پی سے نالاں تو ہے لیکن اب دو ہاتھ بڑھ کر صوبہ کا نعرہ لگا کر ریلیوں کی سیاست پر آگئی ہے۔
کراچی اور حیدر آباد میں شاندار اور بڑی ریلیاں نکالنے کے بعد اب میرپورخاص میں ریلی کی تیاری کر رہی ہے۔ کراچی پر سیاست میں تو پی ٹی آئی ، جماعت اسلامی ، پی پی پی متحرک ہیں ۔ پی پی پی نے اتوار کو کراچی میں پاور شو کیا ۔ اس سے پہلے کراچی حقوق ریلی جماعت اسلامی بھی کامیاب پاور شو کر چکی ہے۔ ایم کیو ایم نے اتوار کو حیدرآباد میں کامیاب پاور شو کیا۔ اتوار ہی کو پی ایس پی نے اتحاد ٹائون میں پاور شو کیا۔
ایم کیو ایم کی کراچی ریلی جو بڑی ریلی تھی صوبہ کے نعرے کے بعد قوم پرستوں سے ریلی نکالی جس میں سندھو دیش کے نعرے لگے۔ ملک کے خلاف نعرے لگنے پر کوئی بغاوت کا مقدمہ نہیں بنا نہ پی ٹی آئی ، نہ جماعت اسلامی ،نہ پی پی پی نہ اور کوئی جماعت بولی صرف ایم کیو ایم نے احتجاج بھی کیا اور کھل کر انکی مخالفت کی اور کہا کہ مہاجروں کے ہوتے ہوئے کوئی سندھودیش نہیں بنے گا۔
ہمارے والدین نے ملک بنایا اولادیں ملک بچائیں گی۔ اس سے قبل سندھ یونیورسٹی جامشورو میں سندھو دیش کا ترانہ بجا اور وائس چانسلر نے بھی سنا پی پی پی نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ تاہم اب ایم کیو ایم کی ٹون کچھ کرنے والی ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ ملازمتوں سمیت کسی بھی معاملے میں مہاجروں اور کراچی کے مستقل باشندوں جس میں پختون ، پنجابی، بلوچ، سب شامل ہیں ۔انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ انکے شہر 70فیصد ٹیک ریوینیو وفاق کو اور 90فیصد صوبہ کو دینے کے باوجو د بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔ انہیں مردم شماری میں آدھا گن کر استحصال کیا گیا،یہ عمل ہر مردم شماری میں کیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں مین احساس محرومی بہت بڑھ چکا ہے اور عوام سڑکوں پر آکر بھرپور احتجاجی مہم چلانے میں دلچسپی لے رہی ہے۔ سندھ میں آدھا تمہارا آدھا ہمارا کے نعرے لگ گئے ہیں اور اس میں شدت آرہی ہے۔ ایسی صورتحال میں پی پی پی کی ہٹ دھرمی اور مہاجر وں کو ہر جگہ سے مائنس کرنا صوبہ کے قیام کو یقینی بنانا ہے۔ خورشید شاہ فرماتے ہیں کہ عمران خان کی خواہش پر ایم کیو ایم صوبہ کا نعرہ لگا رہی ہے۔ اگر ایسا ہے بھی تو یہ تقسیم کا عمل جنوبی پنجاب صوبہ سے پہلے نہ ہوجائے۔
کراچی کے عوام بپھرے پڑے ہیں ، میئر کراچی نے ڈیلیور نہیں کیا۔ وسائل نہ ہونا انکا عذر تھا۔ اب عوام کو صوبہ چاہئے تاکہ وہ اس شہر کا پہیہ چلتا دیکھیں ۔ پورے ملک کو چلانے والے شہر کو نظر انداز کرنے کا احساس وزیر اعظم عمران خان واشگاف الفاظ میں کر چکے ہیں ۔ سندھی قوم پرست حیدر آباد میں یونیورسٹی نہیں بننے دینا چاہتے پی پی پی انکی حامی ہے ۔
عمران خان بھی حیدرآباد کے عوام کو یونیورسٹی کا تحفہ دینا چاہتے ہیں ۔ اس لئے اگر شہری علاقوں کو فوری ریلیف نہ ملا تو اب صوبہ کی تحریک کا رکنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ملکی حالات بھی اس بات کے غماز ہیں کہ تمام ملک کی اکائیاں متحد ہوں ہمیں بھارت کو ہر محاذ پر شکست دینی ہے۔ اسکے لئے ملک میں تمام جماعتوں کو قومی سوچ اپنانا ہوگی۔ نفرت عصبیت کو چھوڑ کر اتحاد اور پی پی پی کو مہاجروں کو برابری کی بنیاد پر حق دینا ہوگا، ورنہ صوبہ کی تحریک منطقی انجام کو پہنچے گی۔خواہ اس میں کتنے سخت عوامل سانے آئیں۔ یہ اب پی پی پی کو سوچنا ہے۔ کہیں بہت دیر نہ ہوجائے۔