قائد اعظم بھی عالم بالا میں کراچی کیلئے پریشان

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام علیکم:۔
کچھ روز قبل سگار خریدنے جنت اور دوزخ کے درمیانی چوراہے پر موجود پان کی دکان پر گیا، وہاں پان کی دکان کے برابر میں کراچی کے اخبارات کا اسٹال لگا تھا، تمہاری دلچسپی کیلئے عرض کروں کہ کراچی کے اخبارات پرجنت اور دوزخ دونوں میں پابندی ہے۔

جنت میں  اس لئے کہ ان اخبارات کی خبریں ساکنان جنت کو اتنا مغموم کردیتی ہیں کہ وہ خود کو جہنم میں موجود محسوس کرتے ہیں اور جہنم میں یہ اخبارات اس لئے ممنوع ہیں کہ جہنم کے سزاء یافتہ مجرموں کیلئے ان اخبارات کی خبریں باعث مسرت ہوتی ہیں کہ ان خبروں کو پڑھ کر اہل جہنم خوش ہوتے ہیں کہ چلو کوئی جگہ تو ہے جہاں لوگ ہم سے بھی بدتر زندگی بسر کررہے ہیں۔

میں نے حسب عادت ڈان اخبار اٹھایا کہ اس اخبار جس سے میرا گہرا تعلق ہے، ڈان کے لفظی معنی غالباً صبح صادق کے ہیں، خبریں پڑھ کر معلوم ہوا کہ کراچی میں مسائل کی شب تاریک ہی رہتی ہے صبح ہوتی ہی نہیں۔ ایک خبر میں لکھا تھا کہ کراچی کے بیشتر علاقوں کے گٹر ابلتے ہیں، ہم نے تو چائے کی کیتلی کے علاوہ کسی اور شئے کے ابلنے کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔

ایک اور خبر پڑھ کر بے حد حیرت ہوئی،کراچی والے تین قسم کا پانی خریدتے ہیں، پینے کا الگ، پکانے کا الگ اور باقی ضروریات کیلئے علیحدہ پانی خریدا جاتا ہے۔ یہاں ہم نے تو زیادہ سے زیادہ الہ آباد میں دو پانی دیکھے جہاں گنگا اور جمنا ایک دوسرے سے ملتی ہیں مگر یہاں تو کراچی کے ہر گھر میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔

بہت سے علاقوں میں گھروں میں پانی کی لائن ہی موجود نہیں بلکہ ٹینکر کے ذریعے خرید کر پانی مہیا ہوتا ہے۔ حیرت ہے کہ یہ اسی شہر کراچی کی تصویر  کشی ہورہی ہے جہاں کے باسیوں نے ہر ایک فرلانگ پر جانوروں کے پینے کیلئے حوض بنوائے ہوئے تھے، جہاں جانور صاف پانی پیتے تھے، اب انسان صاف پانی کو ترستے ہیں ۔

ایک خبر میں یہ لکھا تھا کہ اس شہر میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر لوگوں کو قتل بھی کیا جاتا ہے۔یہ پڑھ کر مجھے بہت تکلیف ہوئی، اس لئے کے تقسیم کے بعد ہنگاموں  کی خبریں سن کر کئی روز تک اداس ہوجاتا تھا مگر پھر یہ میرا دل بڑا کرتی تھیں کے مستقبل میں پاکستان کے شہریوں کی قسمت میں سکون ہوگا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہاں تو روز جگہ جگہ صف ماتم بچھی ہوا کریگی۔

ایک خبر میں لکھا تھا کہ قائد اعظم کے مزار پر دھندا ہوتا ہے، یہاں یہ پڑھ کر غالب کا شعر یاد آتا ہے۔
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا۔۔۔نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا۔

ابھی میں اخبار پڑھ ہی رہا تھا کہ کچھ دیر بعد علامہ اقبال بھی حقے کا تمباکو لینے آگئے، جب میں نے انہیں یہ خبریں سنائیں تو علامہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی سی جاری ہوگئی اور روتے روتے انکی ہچکی بندھ گئی، یقین جانو اس دن کےبعد سے علامہ اقبال سوئےنہیں ہیں۔
یاد رکھو یہ وہی اقبال ہیں جنہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا وہ کہتے ہیں کہ اب کوئی خواب نہیں دیکھیں گے۔
والسلام
محمد علی جناح

Related Posts