شہریت کسی بھی انسان کا ایک بنیادی حق سمجھا جاتا ہے جو ہر دوسرے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔پاکستان نے اپنا پہلا شہریت قانون 13 اپریل 1951 کو نافذ کیااوراس قانون میں متعدد بار ترمیم کی گئیں تاکہ ملک کے ابھرتے ہوئے سیاسی منظرنامے کو اپنایا جاسکے۔
موجودہ حکومت نے خصوصی معاونین اور وزیر اعظم کے مشیروں کے اثاثوں کی تفصیلات جاری کرکے ایک بے مثال اقدام اٹھایا ،غیر منتخب مشیر اور معاونین اپنے اثاثوں کی تفصیلات ظاہر کرنے کے پابند نہیں تھے کیونکہ انہوں نے عہدے کا حلف نہیں لیا تھا۔
وزیر اعظم نے کابینہ کے تمام ممبروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانے کے لئے اپنے ذاتی اثاثوں کو عام کریں ، وزیراعظم کی ہدایت کے بعد سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق کم از کم چار خصوصی معاونین یا مشیر دوہری شہریت رکھتے ہیں ۔
وزیر اعظم کے پاس اپنی توسیعی کابینہ کے علاوہ 15 خصوصی معاون اور چھ مشیر ہیں۔ اس سے پارٹی ممبران اور منتخب اراکین پارلیمنٹ کے مابین انھیں دیئے گئے فیصلے کے اختیارات پر تضاد پیدا ہوا ہے جبکہ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے غیر منتخب ارکان پر سوال بھی اٹھایا تھا لیکن حکومت کا اصرار ہے کہ اسے مہارت کی ضرورت ہے ، اس لئے متعلقہ شعبوں میں ماہرین کا تقرر کیا گیا۔
مشیران اور معاونین کے اثاثوں اور شہریت کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد ماحول میں تناؤ کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے، حکومت پر اپنے پہلے دعوؤں پر پسپائی کا الزام لگایا گیا ہے کہ دوہری شہریت کے حامل افراد کو سرکاری عہدوں پر رہنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ حکومت کو ’میڈ اِن پاکستان‘ پالیسی کی یاد دلادی گئی ہے کیونکہ عمران خان وزیر اعظم بننے سے قبل کلیدی عہدوں پر مقامی افراد کو ترجیح دینے کے قائل تھے۔
حکومت نے اپنا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ صرف پارلیمنٹرینز کو غیر ملکی شہریت رکھنے سے روکاگیا ہے۔ ماضی میں کئی سیاستدانوں کو الیکشن لڑنے سے روک دیا گیا تھا اور یہاں تک کہ وہ دوہری شہریت ہونے کے سبب نااہل بھی ہوئے تھے۔
یہ معاملہ حکومت کے لئے یقینی طور پر ایک نیا مسئلہ پیدا کریگا، ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن حکومت کیخلاف مضبوط لائحہ بنانے کیلئے تیاری کررہی ہے اور غیر منتخب ارب پتی افراد کی کلیدی عہدوں پر موجودگی نے بھی سوالات کو جنم دیا ہے۔
حکومت کا معاونین اور مشیران کے اثاثے عام کرنا مثبت اقدام ہے لیکن شہریت اور آمدن سے مطابقت نہ رکھنے والے اثاثوں کی تحقیقات بھی ہونی چاہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کو یقینی بنائے تاکہ کوئی نیا تنازعہ نہ کھڑا ہوسکے۔