قندیل بلوچ کی چوتھی برسی اور پاکستان کے نظامِ انصاف کی حالتِ زار

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

قندیل بلوچ کی چوتھی برسی اور پاکستان کے نظامِ انصاف کی حالتِ زار
قندیل بلوچ کی چوتھی برسی اور پاکستان کے نظامِ انصاف کی حالتِ زار

آج سے ٹھیک 4 سال قبل معروف ماڈل اور متنازعہ اسکینڈلز کی زد پر رہنے والی 26 سالہ لڑکی کو بے دردی سے قتل کردیا گیا جس کا نام قندیل بلوچ ہے جسے آج تک انصاف مہیا نہ ہوسکا۔

آئیے قندیل بلوچ کی چوتھی برسی کے موقعے پر اس کی ذات سے منسلک مختلف سوالات کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کی زندگی کی تفصیلات پر غور کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملک کے نظامِ انصاف میں کیا کیا سقم موجود ہیں۔

ماڈل قندیل بلوچ کون؟

حقیقت یہ ہے کہ قندیل بلوچ اس لڑکی کا حقیقی نام نہیں۔ والدین نے یکم مارچ 1990ء میں پیدا ہونے والی بیٹی کا نام فوزیہ عظیم رکھا جو سوشل میڈیا پر متنازعہ ویڈیوز کے باعث قندیل بلوچ کے نام سے مشہور ہوئی۔

صوبہ پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان میں قندیل بلوچ کی ولادت ہوئی اور پرورش شاہ صدر دین میں کی گئی۔ یہ لوگ کل 6 بھائی اور 6 ہی بہنیں تھیں جبکہ قندیل بلوچ کے گھر کے حالات زیادہ اچھے نہیں تھے۔

معاشی مسائل کے باعث قندیل بلوچ نے ایک بس میں میزبان کی ملازمت کر لی جس سے تھوڑی بہت گزر بسر اور جیب خرچ ملنے لگا۔ ایک دور میں قندیل بلوچ نعت خوانی بھی کرتی رہی، تاہم اس حوالے سے اسے خاطرخواہ شہرت نہ مل سکی۔ 

اپنی موت سے محض 3 سال قبل یعنی سن 2013ء میں قندیل بلوچ کو میڈیا نے توجہ دینا شروع کی کیونکہ وہ پاکستان آئڈل میں گلوکارہ کی حیثیت سے شریک ہوئی اور جب عوام نے اس کا آڈیشن دیکھا تو وہ انٹرنیٹ پر مشہور ہو گئی۔

انٹرنیٹ پر توجہ ملنے کے بعد قندیل بلوچ کی ویڈیوز وائرل ہونا شروع ہوئیں جن میں وہ مختلف نازیبا حرکات میں مشغول دکھائی دی۔ کبھی اس کے خیالات، کبھی حرکات اور کبھی مفتی قوی کے ساتھ معاملات پر شدید تنقید کی گئی۔

متنازعہ معاملات اور اسکینڈلز

اگر ہم اسکینڈلز کو قندیل بلوچ کی نظر سے دیکھیں تو وہ اس کا کیرئیر کہلائیں گے کیونکہ کبھی اس نے یہ اعلان کیا کہ اگر پاکستان نے کرکٹ کا مقابلہ بھارت سے جیت لیا تو میں برہنہ رقص کروں گی تو کبھی وہ مفتی قوی کی ٹوپی پہن کر عجیب و غریب حرکتیں کرتی دکھائی دی۔

دوسری جانب عوام الناس کا غم و غصہ اپنی جگہ درست تھا کیونکہ لوگ کسی بھی ماڈل کو رول ماڈل کی جگہ ہی دیکھنا پسند کرتے ہیں تاہم قندیل بلوچ کی شخصیت میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ خود اعتراف کرچکی ہے کہ میں بھارتی اداکاراؤں سے متاثر ہوں۔

جن بھارتی خواتین اداکاروں سے قندیل بلوچ متاثر رہی ان میں مخربِ اخلاق فلموں کی اداکارہ سنی لیونی، پونم پانڈے اور راکھی ساونت شامل ہیں جس سے اس کی ذہنی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

خواتین کے حقوق کا نعرہ

مغربی کلچر پر غور کیجئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین کے حقوق کا نعرہ بلند کرکے انہیں لباس سے محروم برہنہ رقص پر مجبور کیاجاتا ہے اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اسے دقیانوس اور قدامت پرست سمجھتے ہیں۔

یہی حال قندیل بلوچ کا بھی رہا۔جب کبھی سنجیدہ گفتگو کرنے کا موقع ملا قندیل بلوچ نے خواتین کو حقوق دینے اور ملکی معاشرے میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے ناجائز سلوک کی مذمت کی۔

اپنی موت سے کچھ ہی دن قبل قندیل بلوچ نے بین یعنی غمزدہ چیخ پکار کے نام سے ایک ویڈیو ریلیز کی جس میں مقتولہ عورتوں پر پابندی کی مذمت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ 

موت کی دھمکیاں

مفتی عبدالقوی جو قندیل بلوچ سے ملاقات کے بعد خود بھی ایک متنازعہ شخصیت بن چکے ہیں، ان سے ملاقات کے بعد قندیل بلوچ کا یہ بیان سامنے آیا کہ مفتی قوی اور دیگر لوگ مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

دھمکیوں کے بعد قندیل بلوچ کا سابقہ شوہر بھی سامنے آگیا جس پر قندیل بلوچ نے ظلم و تشدد کے الزامات لگائے۔ موت سے 1 روز قبل قندیل بلوچ نے ایک صحافی کو بتایا کہ میں نے پولیس سے بھی شکایت کی لیکن شنوائی نہیں ہوئی۔

اس نے کہا کہ میں عید کے بعد ملک سے باہر چلی جاؤں گی کیونکہ پاکستان میں میری جان کو خطرہ ہے۔ بیرونِ ملک شاید میں قتل سے بچ سکوں، تاہم ایسا نہ ہوسکا۔ 

قندیل بلوچ کا قتل 

غیرت کے نام پر قتل سندھ اور پنجاب میں ایک عام بات بن چکی ہے۔ 15 اور 16 جولائی کی درمیانی شب جب فوزیہ عظیم المعروف قندیل بلوچ سو رہی تھی تو اس کے حقیقی بھائی نے اس کا گلا گھونٹ کر اسے قتل کردیا۔

بعد ازاں وسیم عظیم نامی غیرت کے اِس طوفان سے جب پوچھا گیا کہ تم نے اپنی بہن کی جان کیوں لی؟ تو اس نے کہا کہ قندیل بلوچ میرے خاندان کی عزت پر دھبہ تھی جسے میں نے ختم کردیا۔

قتل اور غیرت کا تعلق؟

غیرت کو سمجھنا بے حد اہم ہے کہ یہ ہے کیا جس کے نام پر ایک شخص دوسرے کا گلا گھونٹ کر خود کو عزت دار سمجھتا ہے؟ کسی شخص کو جرم کی سزا دی جائے تو وہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اگر سزا جرم سے بھی بڑی ہو تو وہ ناقابلِ فہم ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر قندیل بلوچ نے قوم میں متنازعہ پیغامات چھوڑے ، ناقابلِ فہم باتیں کیں اور اسکینڈلز کا حصہ بنی جس کی سزا آئینِ پاکستان میں موجود ہے، لیکن یقین جانیے کہ وہ سزائے موت نہیں ہے۔

دوسری جانب قاتل کو بھی سزا دینا ریاست اور عدلیہ کا اختیار ہے اور عدلیہ ہر قاتل کو بھی یہ حق دیتی ہے کہ وہ منصفین کو یہ بتائے کہ اس نے فلاں کا قتل کیوں کیا؟ اس لیے غیرت کے نام پر قتل کو کسی بھی طرح جائز قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ خود اسلام اس کے خلاف ہے۔

قتل کی یہ قسم نئی نہیں ہے۔ اسلام سے قبل دورِ جاہلیت میں عرب لوگ اپنی بیٹیوں کوزندہ درگور کردیا کرتے تھے اور وہ بھی یہی سمجھتے تھے جو آج غیرت کے نام پر کسی کو قتل کرنے والا سمجھتا ہے۔

وہ سمجھتے تھے کہ بیٹی ہمارے گھر میں پیدا ہوئی ہے تو ہم ذلیل و رسوا ہو گئے۔ آج ہم نے اس کو زندہ دفن کرکے جان سے مار ڈالا، اِس لیے ہماری عزت بحال ہو گئی ہے اور اب ہم معزز ہیں۔

اسلام غیرت کے نام پر قتل کے سخت خلاف ہے۔ سورۃ التکویر کی آیت نمبر 8 اور 9 میں اللہ تعالیٰ  قیامت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:اور جب زندہ درگور کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی؟

یعنی غیرت کے نام پر قتل کی گئی لڑکی اللہ کے نزدیک مظلوم ہے اور قتل کرنے والا جو اپنے آپ کو معزز سمجھ رہا ہے، ظالم ہے جسے سزائے موت دینا ضروری ہے۔ 

Related Posts