پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، گزشتہ چند ماہ سے بھارتی وزیراعظم پاکستان کیخلاف گرجتے برستے دکھائی دیتے ہیں، بھارت پاکستان پر بے سروپا الزامات لگاکر سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے سے بھی گریز نہیں کرتا جبکہ اگست 2019ءمقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
بھارتی فورسز نے مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کی تمام حدیں پار کرلی ہیں، اقوام متحدہ ،امریکا اور یورپی یونین کے انسانی حقوق کے کمیشنز اور سیکڑوں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت کے ظلم و بربریت کیخلاف نوحہ کناں ہیں لیکن حاصل حصول کچھ نہیں۔
بھارت اندرون ملک شورش اور بدامنی کو پاکستان کیساتھ جوڑنے کی کوشش میں ہے جو کہ دراصل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی منفی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ خود اپنے ملک میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کیخلاف غیر انسانی اور غیر حقیقت پسندانہ پالیسیاں انسانی المیہ کو جنم دے رہی ہیں۔
حالیہ کچھ عرصہ میں بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور پاکستان کے ساتھ دیگر سرحدی علاقوں میں بلا اشتعال فائرنگ کے واقعات میں تیزی آئی ہے جبکہ بھارت پاکستان اور مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات لگانے کیلئے دہشت گردی کے ڈراموں کا ارتکاب بھی کرچکا ہے جو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
پاکستان بھارت کی تمام تر جارحیت اور اشتعال انگیزی کے باوجود بین الاقوامی اصول و قوانین پر عمل پیرا ہے اور انتہائی صبر اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نقصان پر قابو پانے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے حالانکہ پاکستان کیلئے بھارت کو منہ توڑ جواب دینا کوئی مشکل امر نہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان خطے میں امن کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کررہا ہے۔
پاکستان کے امن دوست رویہ کو کمزوری جان کر بزدل بھارتی سورمامزید شیر ہوتے جارہے ہیں اور خود کو برتر سمجھنے کے زعم میں مبتلا بھارتی بزدل فوجیوں اور پالیسی سازوں نے اپنی فتح سمجھتے ہوئے ایک فاش غلطی کا ارتکاب کیا۔
چین نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی کا انتخاب کیا اور اچھے پڑوسی ہونے کی حیثیت سے معاشی مفادات کی خاطر ہندوستان کے ساتھ بھی شائستہ انداز میں سلوک کیا لیکن بھارتی پالیسی سازوں نے اس امن پسندانہ رویہ کو بھی کمزوری سمجھ لیاجس کا نتیجہ کچھ دن پہلے ہم نے لداخ میں وادی گالان میں دیکھا ہے۔
چینی دفتر خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ کچھ ہندوستانی فوجی چینی حدودمیں داخل ہوئے اور چینی فوج کے ساتھ جھگڑا ہوا اور 20 ہندوستانی فوجیوں کی ہلاکت کے ساتھ یہ معاملہ ختم ہوا تاہم چین کو کوئی جانی نقصان نہیں پہنچا ۔
امید تھی کہ خطے میں نفرت کے بیج بونے والے نریندر مودی نے وادی گالان میں ہونیوالے واقعہ سے سبق سیکھا ہوگا اور جھڑپ میں 20 فوجیوں کی ہلاکت سے بھارت کو جواب مل گیا ہوگا لیکن بھارتی وزیراعظم نے ایک بار پھر زہر اگلتے ہوئے الزام چین پر عائد کیا ۔
نریندر مودی اپنی قوم کو یہ کہہ کر دلاسہ دیتے دکھائی دیئے کہ ہمارے فوجی مرے نہیں شہید ہوئے ہیں اور ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے بھارت اشتعال انگیزی پر معقول جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، ہندوستان امن چاہتا ہے لیکن جارحیت کا جواب دینا بھی جانتا ہے اور بھارت اپنی سالمیت پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
وادی گالان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غیر مستقل نشست پر ہندوستان کی بلا مقابلہ جیت کو متاثر کردیا ہے۔ اگرچہ ہندوستان سلامتی کونسل میں چین کے ساتھ اسی میز پر بیٹھا ہوگا لیکن ایک شرمندہ ملک کی حیثیت سے بھارت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کوئی اور نہیں یہ چین ہے جسے سرحدوں پر اشتعال انگیزی سے پریشان کیا جاسکتا ہے نہ ہی وہاں دہشت گردی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی دھمکیاں دی جا سکتی ہیں لہٰذا محتاط رہیں اور چین اور بھارت سرحدی کشیدگی اور مستقبل میں تصادم کی صورتحال سے بچنے کیلئے اقدامات کو یقینی بناکر خطے کے امن کو محفوظ بنائیں۔