پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، جون کے وسط میں کیسز کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کا ہندسہ عبور کرچکی ہے تاہم ملک کی معاشی صورتحال کے پیش نظر حکومت نے صرف کورونا سے متاثرہ علاقوں میں انفیکشن پھیلنے کے خدشات کے پیش نظر اسمارٹ لاک ڈاؤن لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے سلیکٹڈ لاک ڈاؤن کیلئے 20 شہروں کی نشاندہی کی ہے جہاں کورونا کیسز کی تعداد دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہے، ان میں پنجاب کے 7 شہر ہیں جن میں پابندی لگانے کی تجویز پیش کی گئی ہے جبکہ لاہور میں کیسز بڑھنے کی وجہ سے کچھ علاقوں کو سیل کردیا گیا ہے۔
وزیرصحت پنجاب کا کہنا ہے کہ لوگ اب بھی کورونا وائرس کو سنجیدہ نہیں لے رہے اور کیسز بڑھنے کے ذمہ دار عوام خود ہیں تاہم اب یہ دیکھنا ہے کہ کورونا متاثرہ علاقوں میں سلیکٹڈ یا اسمارٹ لاک ڈاؤن کتنا کارگر ثابت ہوتا ہے۔
اسمارٹ لاک ڈاؤن تشخیص ،کھوج اور قرنطینہ کی حکمت عملی کے تحت کیا جاتا ہے اور موجودہ حالات میں وزیراعظم پاکستان کی مخالفت کے بعد اسمارٹ لاک ڈاؤن کو ہی آخری حل کے طور پر دیکھا جارہا ہے لیکن اس وقت تشویشناک بات یہ ہے کہ متاثرین کی تشخیص کیلئے ٹیسٹ کی صلاحیت اب بھی ضرورت سے کم ہے اور مشتبہ مریضوں کا سراغ لگانے کے حوالے سے کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ اس وقت حکومت کو متاثرین کے ٹیسٹ کی صلاحیت میں اضافہ اور متاثرہ علاقوں تک رسائی کی ضرورت ہے۔
عوام کی غیر سنجیدگی نے صورتحال کو بہت زیادہ خراب کردیا ہے، ایس او پیز کی خلاف ورزی پر سزائیں نہ ملنے کی وجہ سے شہریوں کے حوصلہ بڑھ چکے ہیں، حکومت نے ماسک پہننا لازمی قرار دیا لیکن شہری اس پابندی کو ماننے سے انکار ہیں، دکاندار بھی ایس او پیز پر عملدرآمد کرنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے معاملات مزید خرابی کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم جن سنگین حالات کا سامنا کر رہے ہیں اس کے لئے ہماری اجتماعی بے حسی ذمہ دار ہے۔
کورونا وائرس سے اموات کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ہم روزانہ سو سے زیادہ اموات دیکھ رہے ہیں۔ اسمارٹ لاک ڈاؤن حکمت عملی کام نہ کرنے کی صورت میں حکومت کے پاس کوئی ہنگامی منصوبہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی متبادل ہے۔ کیا حکومت ایک بار پھر لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے لئے سخت فیصلہ کرے گی؟ یا لاکھوں لوگوں کی زندگی اور صحت کو داؤ پر لگائے گی؟۔