پاکستان کا موجودہ انتخابی نظام 12 ویں صدی کا قدیم ترین نظام ہے جس کیلئے فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ کی اصطلاح یعنی ایف پی ٹی پی استعمال ہوتی ہے اورایف پی ٹی پی نظام برطانیہ اور کینیڈا میں بھی موجود ہے تاہم مکمل طور پر تسلی بخش نہ ہونے کی وجہ سے کچھ ممالک میں اس نظام میں اصلاحات کے حوالے سے غور کیا جارہا ہے۔
ایف پی ٹی پی سسٹم میں زیادہ ووٹ لینے والا امید وار فاتح کہلاتا ہے ،ووٹر صرف اپنے انتخابی حلقے میں اپنے پسندیدہ امیدوار کے نام پر مہر لگاتا ہے اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امید وار جیت جاتا ہے۔
ایف پی ٹی پی رائے دہندگان کیلئے اہم جماعتوں کے مابین واضح انتخاب فراہم کرتی ہے۔اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن حاصل نہیں کر پاتی۔یہ نظام قانون سازی کے عمل کی شفافیت کیلئے ایک واضح اپوزیشن تشکیل دیتا ہے۔حلقہ بندیوں اور ان کے نمائندوں کے مابین روابط کو فروغ ملتا ہے ۔ ووٹرز جماعتوں کے بجائے لوگوں کے درمیان انتخاب کرسکتے ہیں۔
مقبول آزاد امیدواروں کے منتخب ہونے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ ایف پی ٹی پی نظام سادہ اور سمجھنے میں آسان ہے۔ اس میں چھوٹی جماعتوں کو ’منصفانہ‘ نمائندگی سے کا موقع م ملتا ہے۔ایک اصول کے مطابق اقلیتوں کو منصفانہ نمائندگی سے خارج کیا گیا ہے۔
خواتین کو مقننہ سے الگ کر دیا گیا ہےجس سے خواتین کے براہ راست منتخب ہونے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔یہ نظام برادری سسٹم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے جہاں ایک پارٹی کسی صوبے یا علاقے کی تمام سیٹیں جیت لیتی ہے۔ اگر کسی جماعت کو کسی ملک کے کسی خاص حصے میں زبردست حمایت حاصل ہے تو وہ کثیر تعداد میں ووٹ حاصل کرتا ہے تو وہ اس علاقے کی تمام یا قریب قریب تمام سیٹیں جیت لے گا۔
اس نظام میں بےشمار ووٹ غیر واضح ہونے کی وجہ سے مسترد کرکے ضائع کردیئے جاتے ہیں۔ اس نظام سے ووٹ تقسیم ہونے کا سبب بن سکتا ہے جہاں دو جماعتیں یا امیدوار مقابلہ کرتے ہیں ۔1970 سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے ہونے والے ہر انتخابات ایف پی ٹی پی نظام کے تحت ہوئے ہیںاورہمیشہ پاکستان میں کم ٹرن آؤٹ نے انتخابات کو متاثر کیا ہے۔
ایف پی ٹی پی سسٹم کے تحت صرف چار انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا عمل 50 فیصد سے زیادہ تھا ، یعنی 1970 ، 1977 ، 2013 اور 2018 جبکہ دیگر انتخابات میں رائے دہندگان کی تعداد 35 فیصد سے 45 فیصد تک ہے۔رائے دہندگان کی عدم دلچسپی کی بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ووٹرز کو یقین ہے کہ ان کے ووٹ سے نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑے گا یہی وجہ ہے کہ لوگ انتخابی عمل سے الگ ہوگئے ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذریعہ انتخابات کے انعقاد اورانتخابی نظام میں خاطر خواہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔
یہ انتہائی پریشان کن ہے کہ فاتح جماعتوں نے کل رجسٹرڈ ووٹوں میں سے 15٪ سے 20٪ تک ہی ووٹ حاصل کئے ۔مزید 20٪ سے 25٪ رائے دہندگان نے دوسری پارٹیوں کو ووٹ دیا جبکہ 55٪ سے 65٪ نے ووٹ ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ کل ووٹوں میں سے صرف 15 سے 20 فیصد ووٹ لینے والی جماعت کاپوری 100٪ فیصد آبادی پر حکومت کرنا مضحکہ خیز ہے۔ انتخابی نظام کو لوگوں کے حقیقی مینڈیٹ کی عکاسی کرنی چاہئے اور صرف حقیقی اکثریت حاصل کرنے والے کو ہی ملک پر حکمرانی کرنی چاہیے۔
پاکستان میں ایف پی ٹی پی کے نظام کے تحت ایسا لگتا ہے کہ اس نظام نے قوم پرستی ،علاقائیت اور قبائلی ازم کو فروغ دیا ہے۔ پاکستان میں موجودہ انتخابی نظام نے قوموںاور برادریوں کو فرقوں میں تقسیم کردیا ہے، ملک میں سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک واضح خلیج دکھائی دیتی ہے، 2018ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف واحد جماعت تھی جس نے چاروں صوبوں سے ووٹ حاصل کئے۔
ہمیں موجودہ سسٹم کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستان کو متناسب نمائندگی کے نظام کی طرف بڑھنا چاہئے۔ کسی بھی انتخابی نظام کے ساتھ متناسب نمائندگی کے فوائد اور نقصانات ہیں۔ اس کے بنیادی فوائد یہ ہیں کہ اس سے اکثریت رائے کو فوقفیت حاصل ہوتی ہے اوراس سے پارٹیوں کو اپنے گھر سے باہر انتخابی مہم چلانے کی ترغیب ملتی ہے۔ تاہم اس نظام کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس سے اتحادی حکومتوں کی طرف جاتا ہے جس کے نتیجے میں قانون سازی کے عمل میں شدید مشکلات پیش آتی ہیں۔
قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں نصف جنرل نشستوں کا تعین موجودہ ایف پی ٹی پی نظام کے ذریعہ ہوتا ہے۔ • پاکستان کو جرمنی کی طرح مخلوط انتخابی نظام اپنانا چاہئے، جرمنی میں نصف نشستیں ایف پی ٹی پی کا استعمال کرتے ہوئے انتخابی حلقے کی بنیاد پر طے کی جاتی ہیں جبکہ بقیہ آدھی جماعتوں کی فہرستوں کے مطابق تناسب کی بنیاد پر مختص کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں کا بھی اسی طرح تعین کیا جانا چاہئے۔
قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی عام نشستوں کا باقی حصہ تناسب کے ذریعہ طے کیا جائے گا۔ ہر پارٹی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی دونوں کے لئے امیدواروں کی فہرستیں پیش کرے گی۔ ووٹر کے پاس قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے دو انتخاب ہوں گے ، ایک بیلٹ اپنے حلقے کے پسندیدہ امیدوار کا انتخاب کرنے کے لئے اور دوسرا بیلٹ اپنی پسندیدہ پارٹی کی جانب سے منتخب کردہ دوسرے امید وار کیلئے ہونا چاہیے۔خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کی الاٹمنٹ بھی ووٹوں کے تناسب کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
اب ملک میں انتخابی نظام میں اصلاحات اور تبدیلی کا وقت آگیا ہے۔وزیراعظم متعلقہ ماہرین اور سابق منتخب ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ انتخابی نظام میں اصلاحات کے لئے ایک کمیشن قائم کریں ۔