اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستانی ڈرامے سماجی مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا شاندار کردار ادا کررہے ہیں۔ خاندانوں کے اندر جنسی استحصال کو بے نقاب کرنے کے حوالے سے ‘” ڈر سی جاتی ہے صلا”کے بعد ہٹ سیریل ‘عشق زہ نصیب نے ناظرین کے سامنے ذہنی صحت کا معاملہ بخوبی پیش کیا۔
اس ڈرامہ میں ایک ایسی نفسیاتی بیماری کااحاطہ کیا گیا ہے جس کے بارے میں ہمارے معاشرے میں شاذ و نادر ہی بات کی جاتی ہے۔
‘عشق زہ نصیب میں آپ کو ایک مرد کردار سمیر نظر آتا ہے ، جو اس نفسیاتی کیفیت میں مبتلا ہے لیکن اسے دوسروں سے چھپا یتا ہے۔سمیر ایک کامیاب تاجر اوردیکھنے میں ٹھیک لگتا ہے اور ٹھیک کھاتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ نفسیاتی عارضے کا شکار ہے جس کا کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔
اس کا بچپن دکھ میں گزرتا ہے: اس کی ماں اسے چھوڑ دیتی ہے ، اس کی سوتیلی ماں اس سے منہ موڑ لیتی ہے ، وہ بالکل تنہا رہ جاتا ہے۔
اس کا بچپن کا آدھا حصہ گھر کے تہہ خانے میں گزارا ہے جس سے اسے بہت زیادہ اثرپڑتا ہے۔ آخرکار اس کی تکلیف کی وجہ سے وہ خود کشی کی کوشش کرسکتا ہے لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ جاتاہے۔
اس کی منقسم شخصیت سب سے پوشیدہ ہے، اس طرح کی زندگی کو تبدیل کرنے والے ذہنی عوارض کو شاید ہی کبھی ہمارے معاشرے کے لوگ قبول کریں۔
ایسے معاملات میں لوگ کالے جادو یا بھوتوں اور شیطانوں کے کام قرار دیکر اپنے پیاروں میں بدلاؤ لانے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ، مریض کا علاج نہیں جبکہ اذیتیں ملتی ہیں۔
ذہنی بیماریوں میں طرز عمل کام کرنے میں خاصی تکلیف کا سبب بنتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اگر کسی مرد کو جسمانی بیماری کی تشخیص کی جاتی ہے تو وہ بیمار سمجھا جاتا ہے اور اس طرح اس کیلئے ہمدردی کا عنصر پایا جاتا ہے۔
تاہم ذہنی عوارض کے خلاف لڑنے والے شخص کو عام طور پرتوجہ طلب اورمتلاشی جیسے القاب دیدیئے جاتے ہیں یا علاج کے طور پر مذہب کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
عشق زہ نصیب ہمارے معاشرے میں ذہنی صحت کے مسائل اور ان کا علاج نہ کرنے کے نتائج کو اجاگر کرکے معاشرتی رویوں کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔
سمیر اپنی اہلیہ کے ساتھ بدسلوکی کرکے گھر چلا رہا ہے جو اس کی ذہنی حالت سے بے خبر ہے،ناظرین سمیر کی منقسم شخصیت کو ایک بیماری کے طور پر دیکھنے پر مجبور ہیں۔
نفسیاتی مسائل کو حل کرنا لازمی ہے کیونکہ وہ نہ صرف فرد کو متاثر کرتے ہیں بلکہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔عشق زہ نصیب ایک پیغام ہے ۔
دماغی صحت سے آگاہی پاکستان میں ہمیشہ ایک مسئلہ رہی ہے کیونکہ ایک معاشرے کی حیثیت سے اس بات پر زیادہ تشویش پائی جاتی ہے کہ لوگ ڈاکٹر کو کیا بتائیں گے۔
ہم ناانصافی، امتیازی سلوک اور نظرانداز ہونے سے ڈرتے ہیں۔ پورے پاکستان میں ذہنی بیماریوں میں مبتلا افراد کے ساتھ امتیازی سلوک معمول سمجھا جاتاہے۔
بڑھتی ہوئی پریشانیوں اور خودکشی کی شرح کو روکنے کے لئے شعور اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے، عشق زہ نصیب نے اس طرف پہلا قدم اٹھایا ہے۔
اگلا قدم ہمارا ہونا ضروری ہے: اپنے گھروں میں کھلے دل سے ذہنی صحت کے بارے میں تبادلہ خیال کریں اور تکلیف میں مبتلا افراد کی مدد کریں۔