غیر قانونی ری فنڈ کیس: سپریم کورٹ کا ڈپٹی کمشنر سیلز ٹیکس کیخلاف دوبارہ انکوائری کا حکم

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

SC orders FBR to reinvestigate into illegal tax refunds case

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے غیر قانونی ری فنڈ کیس میں ڈپٹی کمشنر سیلز ٹیکس عبدالحمید کے خلاف دوبارہ انکوائری کا حکم دے دیاہے۔ ایف بی آر 3 ماہ میں انکوائری مکمل کرے، ایف بی آر نے ایک جرم میں ایک افسر کو کلیئراور دوسرے کو سزا کیسے دی۔سپریم کورٹ کا برہمی کا اظہار۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے غیر قانونی ریفنڈ کیس کی سماعت کی۔

چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی عدالت میں پیش ہوئے، فیڈرل بورڈ آف ریونیونے ریفنڈ سے متعلق رپورٹ جمع کرائی۔ سماعت کے دوران ایف بی آر کے وکیل نے رپورٹ کے مندرجات پڑھ کر سناتے ہوئے عدالت کوبتایا کہ ریفنڈ کرانے والے اشفاق دینو کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رپورٹ میں ایڈیشنل کمشنر کا ذکر ہی نہیں ہے،انہوں نے استفسار کیاکہ قواعد کے مطابق اصل مجاز افسر کون ہے؟۔ ایف بی آر کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایک ملین سے زیادہ کی رقم ایڈیشنل کمشنر منظور کرتا ہے جبلپ مجاز افسر ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کے استفسار پر وکیل نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر کے اوپر ایڈیشنل کمشنر تھے لیکن ایڈیشنل کمشنر نے ریفنڈ کی منظوری نہیں دی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی کمشنر مجاز تھے تو ایڈیشنل کمشنر بیچ میں کہاں سے آگئے ؟ اس کا مطلب ہے کہ منظوری ڈپٹی کمشنر نے دی۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سرکار کے 874.7 ملین روپے چلے گئے، رقم کیسے واپس لیں گے ؟۔ جس پر شبر زیدی نے کہا ایف بی آر اپنے طور پر ریکوری کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: ہائیکورٹ نے ڈی آئی جی، خام حسین ایس پی ڈاکٹر رضوان کا تبادلہ روک دیا،نوٹیفکیشن کالعدم

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بغیر ریکارڈ انکوائری کیسے کی؟ ہمیں سمجھ نہیں آرہا کیا کر رہے ہیں، اپیل مسترد کر دی تو کیا ہوگا، انہوں نے کہا کہ شبرزیدی صاحب! آپ بیٹھ جائیں۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت کو پتہ ہے کہ پرانی انکوائری رپورٹ دوبارہ پیش کر دی جائے گی، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کا افسر گڑبڑ کرتا ہے تو کیا آپ اسے پکڑ نہیں سکتے،ایف بی آر پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کوئی سچی بات نہیں کر رہا،ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے ساتھ کھیل نہ کھیلیں، سانپ گزر گیا، آپ اب اس کی لکیر پر لاٹھی مار رہے ہیں۔

Related Posts