خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کے آثار پیدا ہورہے ہیں

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پی ٹی آئی نے 2018 کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا ، پنجاب اور مرکز میں حکومت بنائی تاہم اراکین اسمبلی کے مابین اختلافات ظاہر ہونے کے بعد پارٹی کو حال ہی میں دونوں صوبوں اور وفاقی حکومت میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

وزیر اعلیٰ  کے پی کے محمود خان نے ان کے خلاف پریشر گروپ بنانے کی کوشش کرنے پراپنی کابینہ کے تین وزرا سینئر صوبائی وزیر عاطف خان، وزیر صحت شہرام تراکئی اور وزیر مال و ریونیو شکیل احمد کو برطرف کردیا حکومت کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے تحت تینوں صوبائی وزراء پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے خلاف بغاوت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی صوبے کی تاریخ کی پہلی جماعت بنی جس نے لگاتار دوسری بار حکومت تشکیل دی جبکہ کھیلوں اور سیاحت کے وزیر عاطف خان 2018 کے انتخابات کے بعد خود وزیر اعلیٰ کے عہدے کے مضبوط امیدوار تھے۔

وزیر اعلی خیبرپختونخوا نے چندروز قبل صوبائی کابینہ کے بعض اراکین کی ناقص کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی کابینہ میں توسیع اور مختلف محکموں کے قلمدان تبد یل کر دیئے تھے جس پر کئی وزراء کو تحفظات تھے ۔

تحریک انصاف میں اختلافات کی خبروں نے اعلیٰ قیادت کو شدید مشکلات میں ڈال دیا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی وزیراعظم عمران کان نے تاحال وزیراعلیٰ کا برقرار رکھا ہے ،پی ٹی آئی کسی صورت پختونخوا میں حکومت کھونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی تاہم صورتحال سے ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کوپختونخوا کے معاملات اپنے ہاتھ میںلینا ہونگے کیونکہ صوبے میں ترقی کے دعوئے تو بہت کئے جاتے ہیں لیکن بی آرٹی منصوبے اور دیگر منصوبوں میں غیر شفافیت نے پی ٹی آئی کی ساکھ دائو پر لگادی ہے۔

بلوچستان میں جہاں پی ٹی آئی حکومت کا حصہ ہے ، اسپیکر قدوس بزنجو نے اپنی ہی پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف استحقاق کی تحریک پیش کی ہے جس میں وزیر اعلی جام کمال اور دو لوگ دیگر شامل ہیں،بزنجو سابق وزیر اعلیٰ رہے ہیں اور وہ بلوچستان عوامی پارٹی کی کور کمیٹی کے رکن تھے۔

قدوس بزنجو کی جانب سے الزامات سامنے آنے کے بعد اب بلوچستان کے سیٹ اپ میں بھی دراڑیں پیدا ہوگئی ہیں کیونکہ بزنجو نے دعوی کیا ہے کہ بی اے پی کے بیشتر لیڈر اور ایم پی اے جام کمال کی حکومت کے خلاف تھے جو صوبائی حکومت اور یہاں تک کہ پارٹی کے امور چلانے سے قاصر ہیں۔ اسپیکر بلوچستان میں بھی تبدیلی چاہتے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی حکومت کو بچانے کے لئے کوششیں کرنے والے وزیر اعظم عمران خان کے لئے اور بھی زیادہ چیلنجز پیدا ہورہے ہیں۔ پنجاب کے بعد کے پی اور بلوچستان میں حکومتیں متزلزل بنیادوں پر ہیں اور اگر ناراض اراکین کوراضی نہ کیا گیا تو حکومت کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔

Related Posts