کیا بچوں سے زیادتی کیخلاف صرف قانون سازی کافی ہے ؟؟؟

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں گذشتہ پانچ سال کے دوران بچوں سے زیادتی کے 17862 واقعات رپورٹ ہوئے،10620 واقعات لڑکیوں جبکہ 7242 لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی۔پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات جہاں غور طلب ہیں وہیں حل طلب بھی ہیں لیکن ہم ہر واقعے صرف پر تشویش کا اظہار کرکے اپنی ذمہ داریوں سے بری الزمہ ہونے میں عافیت سمجھتے ہیں۔

جنسی استحصال کرنے والے درندے بچوں سے معصومیت اور بچپن چھین لیتے ہیں۔ پھول جیسے ننھے بچوں کیساتھ روز بروز بڑھتے جنسی واقعات کے پیش نظر بچوں کو جسمانی صحت، جنسی افعال اور خطرات کے بارے میں آگاہ کرنا اور خطرناک صورتحال سے نمٹنے کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنا ، معاشرے ، والدین اور تعلیمی اداروں کی اولین ذمہ داری بن چکا ہے۔

قومی اسمبلی میں زینب الرٹ بل متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا ہے ،یہ بل وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے پیش کیا،بل کے تحت بچوں کے ساتھ مار پیٹ، ظلم و تشدد ودیگر جرائم پر کم از کم 10 سال قید جبکہ زیادہ سے زیادہ سزا کی حد پھانسی یا عمر قید مقرر کی گئی ہے۔قید، پھانسی اور عمر قید کے ساتھ جرمانہ بھی کیا جاسکے گااور جرمانے کی حد 10 لاکھ سے 2 کروڑ روپے مقرر کی گئی ہے۔

عدلیہ بچوں پر ظلم و تشدد کے جرائم کا فیصلہ 3 ماہ کے اندر کرے گی جبکہ حکومت گمشدہ بچوں کی تفصیلات پر قومی ڈیٹا بیس تیار کرے گی،زینب الرٹ جوابی ردِ عمل و بازیابی پر ادارے کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا

بل کے تحت 1099 ہیلپ لائن قائم کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ عوام ہیلپ لائن پر بچوں کے ساتھ مختلف اغوا، تشدد اور ظلم و زیادتی کی اطلاع دے سکیں گےاوراگر سرکاری افسران 2 گھنٹے کے اندر بچے کے خلاف جرائم پر ردِ عمل نہ دے سکیں تو انہیں قابلِ سزا قرار دیا جائے گا۔

بل کو زنیب الرٹ بل کا نام دیا گیا ہے ، دو سال قبل قصور میں کمسن بچی زینب کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے بعد ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی جس کے بعد حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہو گیا تھا، جس پر گزشتہ روز بچوں کے ساتھ بچوں کے حقوق کے تحفظ اور جرائم کے انسداد کے لیے زینب الرٹ بل متعارف کرایا گیا ہے۔

پاکستان میں قانون پر سختی سے عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کیساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ پاکستان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو زیادتی کے شکار افراد پر ہی ان کے اوپر ہونے والے مظالم کا الزام ڈال دیتے ہیں، کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پولیس اور عدلیہ کا بھی ظلم و زیادتی کے شکار ہونے والے بچوں کے ساتھ اچھا رویہ نہیں ہوتا۔

ہمارے معاشرے کا مجموعی طور پر کمزور کے خلاف رویہ بہت برا ہے، کیونکہ بچے کمزور ہوتے ہیں، اس لئے ان پر حملہ آسان ہو جاتا ہے تاہم اگر قوانین پر سختی سے عملدر آمد کیا جائے تو اس کا سدباب ممکن ہے لیکن اس کے ساتھ مجموعی سماجی تبدیلی اور رویوں میں تبدیلی بھی اہم ہے۔

بچوں کیساتھ زیادتی کے بڑھتے واقعات صرف قانونی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی مسئلہ بھی ہے جو کہ پاکستان میں ایک حقیقی خطرہ بن چکا ہے، بچوں کو استحصال سے بچانے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد میں اضافے کے ساتھ ، ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن کو نصاب میں شامل کرنا، بچوں کو تربیت دینابھی انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔

بچے ہمارامستقبل ہیں اور ہر قیمت پر ان کی حفاظت تمام مکاتب فکر کی اولین ذمہ داری ہےکیونکہ کوئی بھی معاشرہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے گھناؤنے واقعات کو برداشت نہیں کر سکتا، بچوں کیساتھ زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لیے نئے قوانین بنانے کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کا مستقبل محفوظ ہوسکے۔

Related Posts