ایران نے یوکرین کے مسافر طیارے کو میزائل کا نشانہ بنانے کا اعتراف کرتے ہوئے واقعے کو انسانی غلطی قرار دیا ہے،ایرانی حکام کا موقف ہے کہ طیارے کو ملٹری کی جانب سے مارگرانا انسانی غلطی تھی۔ایران کی فوج نے غلطی سے یوکرین کے مسافر طیارےکو نشانہ بنایا، واقعہ میں 176 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
امریکا کے ساتھ شدید کشیدگی کے دوران انتہائی اعلیٰ سطح پر تیاری میں مصروف ایرانی فوج کی جانب سے مسافر طیارے کو نشانہ بنانے کے عمل پر شدید تنقید کی جارہی ہے تاہم ایران نے اس واقعے پر معذرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مستقبل میں ہونے والے سانحات کی روک تھام کے لئے اپنے نظام کو اپ گریڈ کرے گا۔
ایران کا عذراپنی جگہ ہے تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان شدید کشیدگی کے باوجود انتہائی اہم ہوائی اڈہ کیسے چل رہا تھا ، جنگ کے دوران اگر کوئی مسافرطیارے غیرملکی فضائی حدود میں داخل ہوتا ہے تو اس کو فوجی طیاروں کے ذریعے باہر نکال دیا جاتا ہے۔
ایران کی جانب سے ابتداء میں یوکرینی طیارے کو میزائل مار کر گرانے کی تردید کی جارہی تھی اورایران نے جہاز کا بلیک باکس دینے سے انکار کردیا تھا جبکہ امریکی حکام کا دعویٰ تھا کہ طیارے کو ایران نے غلطی سے نشانہ بنایا جبکہ تہران نے طیارے کو میزائل لگنے کی تردید کی تھی۔
امریکا کے علاوہ کینیڈا اور دیگر ممالک نے انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر طیارے کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا تاہم واقعہ کی ، ویڈیو فوٹیج سامنے آنے کے بعد ایران نے واقعہ کو انسانی غلطی قراردیکر معاملے پر معاملہ دفن کردیا ہے۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل متعدد مسافر طیارے میزائلوں سے ٹکرا چکے ہیں۔ 17 جولائی 2014 کو ملائیشین ایئر لائنز کی پرواز MH17 کو مشرقی یوکرائن میں روسی حمایت یافتہ باغیوں نے گولی مار کر تباہ کردیا۔
ایمسٹرڈیم جانے کے لئے کوالالمپور جانے والی پرواز میں سوار تمام 298 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ واقعہ علیحدگی پسند گروہوں کی وجہ سے پیش آیا تھا اس کے بعد ریاست نے اس واقعے کو قبول کیا تھا۔
ایک اور واقعہ 3 جولائی 1988 کو پیش آیا تھا جب ایران ایئرسے تعلق رکھنے والی ایک پرواز کو امریکی فریگیٹ کے دو میزائلوں کے ذریعہ گرایا گیا تھا۔ امریکہ نے کبھی بھی اس سانحے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن 290 متاثرین کو معاوضہ ادا کیاتھا۔
ایران کی جانب سے میزائل داغے جانے کے چند گھنٹوں بعد ہی شکوک وشبہات نے جنم لے لیا تھا تاہم ایران کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے معاملے دب گیا تھا لیکن اب چونکہ حقیقت سامنے آچکی ہے تو طیارے گرانے کے واقعے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئے۔
قاسم سلیمانی کی ہلاکت سے زیادہ یہ واقعہ تباہی کی پیش خیمہ بن سکتا ہے کیونکہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر ایران کیلئے ہمددری کااظہار کرنیوالے بھی طیارے کی تباہی پر ایران سے نالاں دکھائی دے رہے ہیں۔
واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے تاکہ خطے میں مزید کوئی تباہی آنے سے پہلے اس کا تدارک کیا جاسکے۔