ہارورڈ میڈیکل اسکول کے مردہ خانے کے سابق ڈائریکٹر 57 سالہ سیڈرک لاج، نے وفاقی عدالت میں انسانی باقیات کی چوری اور فروخت کے الزامات میں جرم کا اعتراف کیا ہے۔
انہوں نے 2018 سے 2022 تک اسکول میں عطیہ کردہ لاشوں کے اعضا جیسے دماغ، ہاتھ، جلد، سر اور دیگر حصے چوری کیے اور ریاستوں کے درمیان منتقل کیے۔
یہ اعضا تحقیق اور تعلیم کے مقاصد کے لیے استعمال ہونے تھے لیکن سیڈرک لاج نے انہیں اپنے گھر منتقل کیا اور اپنی اہلیہ ڈینیز لاج کے ساتھ مل کر فروخت کیا۔ڈینیز لاج نے پہلے ہی اسی جرم میں جرم کا اعتراف کیا تھا اور اب سزا کا سامنا کر رہی ہیں۔
سیڈرک لاج کو زیادہ سے زیادہ 10 سال قید اور جرمانہ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس اسکینڈل نے عطیہ دہندگان اور ان کے خاندانوں کے درمیان غم و غصے کی لہر دوڑادی ہے، کیونکہ ان کے پیاروں کی باقیات کو غیر اخلاقی طریقے سے استعمال کیا گیا۔
ہارورڈ یونیورسٹی نے اس واقعے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ سیڈرک لاج کا عمل “اخلاقی طور پر قابل مذمت اور شرمناک” ہے۔ یونیورسٹی نے مردہ خانے کے حفاظتی اقدامات کو مزید سخت کرنے اور عطیہ دہندگان کے باقیات کے انتظام کے لیے نئی پالیسیوں پر غور شروع کر دیا ہے۔