میڈرڈ: طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ بچے جو ننگے پیر گھومیں، ان بچوں کی بہ نسبت زیادہ خوش، پرجوش اور ذہین ہوسکتے ہیں جنہیں زندگی کی ابتدا میں ہی ان کی مائیں رنگ برنگے جوتے پہنا دیتی ہیں۔
اسپین کے شہر میڈرڈ کی ایک یونیورسٹی میں شیرخوار بچوں پر تحقیق کی گئی اور مختلف بچوں کا ذہانت، جوش و خروش اور خوشی کے حوالے سے تجزیہ کیا گیا۔
محققین یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جو بچے جوتوں اور کپڑوں کی قید میں زیادہ ہی بن ٹھن کر گھوم رہے تھے، ان کی زندگی سے دلچسپی، سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش اور چہرے پر خوشی کے تاثرات ان بچوں کی بہ نسبت کم تھے جنہیں ننگے پیر اور کھلے یا ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنا کر چھوڑ دیا گیا تھا۔
اس کے بعد تحقیق کے دائرے کو وسعت دی گئی۔ دیکھا گیا کہ بچے کس چیز سے زیادہ پریشان ہیں۔ کیا انہیں ان کے جوتے زیادہ پریشان کرتے ہیں یا کپڑے؟ اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے کچھ بچوں کو کپڑے پہنا کر ان میں سے کچھ کو جوتوں سے محروم کیا گیا۔
مشاہدے سے واضح ہوگیا کہ بچوں کو کپڑے زیادہ پریشان نہیں کرتے لیکن جوتوں کی وجہ سے ان کی نقل و حرکت محدود ہوجاتی ہے۔ وہ چلنے پھرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اور ذہنی اذیت کا شکار رہتے ہیں۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ شیر خوار بچوں کو جوتوں کے رنگوں سے بہلانے کی بجائے ماؤں کو چاہئے کہ انہیں جوتوں کے بغیر کم از کم دودھ پینے کی مدت یعنی دو سال تک رہنے دیا جائے۔
اس سے بچوں کی جسمانی و دماغی نشوونما بہتر ہوتی ہے اور وہ ماحول کی نت نئی چیزوں کو آسانی سے چھو کر دیکھ سکتے ہیں اور انہیں سمجھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا کہ بچے خوش رہتے ہیں۔ انہیں ننگے پیر گھومنے سے کسی طرح کی پریشانی نہیں ہوتی۔ وہ چاہتے ہیں کہ چلنے پھرنے میں انہیں کسی بھی قسم کی تکلیف نہ ہو۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو جہاں بھی چھوڑا جائے، والدین کو آس پاس موجود رہنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحول کی صفائی ستھرائی کا بھی خیال رکھنا چاہئے تاکہ بچے گندی چیزوں سے الجھ کر اپنی صحت خراب نہ کر بیٹھیں۔
گندگی سے بیماریاں پھیلتی ہیں۔بچوں کو ہونے والی بیماریوں میں سے خسرے کو بہت پریشان کن بیماری سمجھا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال خسرے کی وبا میں تین گنا اضافہ ہوا۔
مزیدپڑھیئے: دُنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک میں بڑھتی ہوئی دل کی بیماریاں۔