بشار الاسد کون تھا؟ کیسے اقتدار میں آیا؟ عروج و زوال کی پوری کہانی

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوٹو این ڈی ٹی وی

بالآخر شام میں انقلاب نے بشار الاسد کے چوبیس سالہ اقتدار کا خاتمہ کر دیا اور اطلاعات کے مطابق انقلابیوں کے دمشق پہنچنے سے پہلے بشار الاسد ملک سے فرار ہوتے ہوئے طیارہ حادثے میں ہلاک ہوگئے ہیں۔

بشار الاسد کا تعلق شام کے ایک نُصیری (جسے علوی بھی کہا جاتا ہے) خاندان سے تھا۔ وہ 2000 میں اپنے والد حافظ الاسد کے انتقال کے بعد شام کے صدر بنے اور انہوں نے تشدد اور تنازعات کے ساتھ اپنی آمرانہ حکومت جاری رکھی۔ ان کے والد حافظ الاسد نے 1970 میں ایک فوجی بغاوت کے بعد اقتدار سنبھالا اور تقریباً 30 سال تک شام پر جابرانہ انداز میں حکومت کی۔

اسد اپنے والد کی آمرانہ حکومت کے سائے میں پلے بڑھے، جس نے شام کی نصیری علوی اقلیت کو اہم سیاسی، فوجی اور سماجی عہدوں پر فائز کیا۔ بشار الاسد نے لندن میں طب کی تعلیم حاصل کی، وہ لندن میں ہی پریکٹس کرنا چاہتے تھے اور سیاست سے دور تھے، تاہم کار حادثے میں بڑے بھائی باسل الاسد کی المناک موت کے بعد حالات بدل گئے۔

چوبیس سالہ بشار الاسد حکومت کا زوال : خطے پر مضمرات

ابتدا میں ان کے والد نے بشار کے بڑے بھائی باسل کو ہی اپنے جانشین کے طور پر تیار کیا تھا، تاہم 1994 میں باسل کی اچانک موت کے بعد بشار کو لندن سے بلا کر جانشین کے طور پر تیار کرنے کا عمل شروع ہوا۔

یوں باپ حافظ الاسد کی موت کے بعد بشار نے ان کی جگہ سنبھالی۔  2011 میں عرب بہار شام میں بھی اتری اور یہاں بھی سیاسی تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرے شروع ہوئے لیکن انہیں وحشیانہ طاقت کا سامنا کرنا پڑا۔ بشار حکومت نے ابتدائی مہینوں میں بڑے پیمانے پر تشدد، ہزاروں مظاہرین کو ہلاک اور گرفتار کرنے کے ساتھ جواب دیا۔

بات چیت کے بجائے بشار الاسد نے اپوزیشن کو طاقت کے زور پر خاموش کرنے کا انتخاب کیا، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر خانہ جنگی شروع ہو گئی اور بشار رژیم نے شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال اور آبادیوں پر اندھا دھند بمباری بھی شروع کردی۔

اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کے بجائے بشار الاسد کی حکومت نے روس اور ایران کی فوجی طاقت سے عوامی تحریک کو دبانے کو ترجیح دی، جس کے نتیجے میں تین لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور ایک کروڑ کے قریب شامی باشندے دنیا بھر میں پناہ گزین بنے۔

اس دوران داعش نے سر اٹھایا اور ملک کے کچھ حصوں پر کنٹرول حاصل کر لیا، جس سے پہلے سے افراتفری کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی۔

رفتہ رفتہ بشار کی حکومت اور فوج بھی کمزور ہوتی چلی گئی اور دوسری طرف اس کا اتحادی روس یوکرین میں اور ایران اسرائیل کے ساتھ لڑائیوں کے باعث مصروف ہوئے تو عوامی تحریک نے پھر سر اٹھایا اور اس بار پر یہ تحریک انقلاب کی صورت میں انجام کو پہنچی اور 8 دسمبر کے علیٰ الصبح بشار الاسد دمشق چھوڑ کر فرار ہوا۔

Related Posts