ریاض: سعودی عرب نے رواں سال 100 سے زائد غیر ملکی شہریوں کو پھانسی دی ہے، جن میں 21 پاکستانی بھی شامل ہیں، یہ رپورٹ سعودی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سامنے آئی ہے۔
تازہ ترین واقعے میں سعودی پریس ایجنسی کے مطابق نجران کے علاقے میں منشیات اسمگلنگ کے جرم میں ایک یمنی شہری کو سزائے موت دی گئی۔
رواں سال اب تک مجموعی طور پر 101 غیر ملکیوں کو پھانسی دی جا چکی ہے، جو گزشتہ سالوں کی نسبت نمایاں اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ 2022 اور 2023 میں ہر سال 34 غیر ملکیوں کو پھانسی دی گئی تھی۔
سعودی عرب کا قانونی نظام اسلامی شریعت کے اصولوں پر مبنی ہے، جہاں سنگین جرائم کے لیے سزائے موت کا نفاذ کیا جاتا ہے۔ ملک میں عام طور پر موت کی سزا تلوار سے سر قلم کرنے کے ذریعے دی جاتی ہے۔
یورپی-سعودی تنظیم برائے انسانی حقوق (ESOHR)نے ان اعداد و شمار کو بے مثال قرار دیا ہے اور سعودی عرب میں غیر ملکیوں کو دی جانے والی سزاؤں پر شدید تنقید کی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات خاص طور پر اس وقت تشویش ناک ہیں جب سعودی عرب عالمی سطح پر اپنی شبیہ بہتر کرنے اور سرمایہ کاری و سیاحت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
انٹرنیٹ پر کیا چل رہا ہے! مشہور ٹک ٹاکر مسکان چانڈیو کی بھی مبینہ نازیبا ویڈیو لیک
2023 میں، سعودی عرب سزائے موت کے لحاظ سے دنیا میں تیسرے نمبر پر تھا جبکہ پہلے دو مقامات چین اور ایران کے تھے۔
غیر ملکی ملزمان کو منصفانہ مقدمے کے لیے درپیش مشکلات پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ای ایس او آیچ آرنے نشاندہی کی ہے کہ اکثر غیر ملکی اسمگلنگ نیٹ ورکس کا شکار ہوتے ہیں، جو ان کے قانونی معاملات کو گرفتاری سے لے کر سزا تک پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
رواں سال اب تک 274 افراد کو موت کی سزا دی جا چکی ہے، جن میں بڑی تعداد منشیات سے متعلق جرائم کے مقدمات کی ہے۔ یہ اعداد و شمار اور واقعات انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے تشویش کا باعث ہیں، جو سعودی عرب کے قانونی عمل اور سزاؤں کی شفافیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔