بھارتی لوک سبھا (ایوانِ زیریں) میں پیر 9دسمبر کی شب متنازعہ شہریت ترمیمی بل پر 12 گھنٹے تک طویل بحث کی گئی جسے آگے چل کر ایکٹ کی حیثیت دیتے ہوئے شہریت ترمیمی ایکٹ یا (سی اے اے) کا نام دیا گیا۔ سی اے اے جسےپہلے صرف سٹیزن امینڈمنٹ بل یا سی اے بی کہا جارہا تھا لوک سبھا میں منظور ہوگیا جبکہ آج پورا بھارت اس کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔
قانون بننے سے قبل بھارت کے ایوانِ زیریں میں بل کے حق میں 311 ووٹ آئے جبکہ مخالفت میں آنے والے 80 ووٹوں کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے بل کو کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔
شہریت ترمیمی ایکٹ کیا ہے؟
شہریت ترمیمی ایکٹ دراصل متعصب مودی حکومت کا مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار ہے۔ بل کے تحت ہمسایہ ممالک بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت آنے والے تمام مذاہب کو بھارتی شہریت دی جائے گی، صرف مسلمانوں کو اس سے محروم رکھا جائے گا۔
نئے قانون کے تحت ہندوؤں، سکھ، عیسائی اور پارسیوں سمیت دیگر تمام مذاہب کو مسلمانوں پر ترجیح دی گئی جبکہ بھارتی آئین تمام شہریوں کو یکساں حقوق دینے کا وعدہ کرتا ہے۔
سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولرازم کا نعرہ
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ساتھ ساتھ سیکولرازم کا نعرہ بھی بلند کرتا ہے جس کامطلب یہ ہے کہ بھارت میں اسلام اور ہندومت سمیت کسی بھی مذہب کے ماننے والے اپنے مذہبی فرائض آزادی سے انجام دے سکتے ہیں اور شہریت کے حقوق حاصل کرسکتے ہیں،لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سچ نہیں۔
متنازعہ شہریت بل نے سیکولر بھارت کے تمام دعووں کی قلعی کھول دی، جس پر صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سکھ، عیسائی اور سیکولر لوگ بھی اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور بڑے پیمانے پر بھوک ہڑتال، احتجاج اور مظاہرے کیے گئے۔
بل کی مخالفت میں ملک گیر مظاہرے اور ہنگامے
بھارت میں شہریت بل ترمیم کے خلاف ملک بھر کے مختلف شہروں میں مظاہرے، ہڑتالیں اور احتجاج جاری ہے جس کے دوران متعدد افرادجان کی بازی ہار گئے۔ ہفتے کے روز آسام کے مظاہروں میں نرمی آئی، تاہم ریاستِ مغربی بنگال میں جمعے کے روز شروع ہونے والے مظاہرےشدت پکڑ گئے۔ بظاہر پر امن نظر آنے والے مظاہروں میں پرتشدد کارروائیاں بھی ساتھ ساتھ جاری ہیں۔
بل پیش کرنے والے وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ بل مسلم مخالف نہیں، لیکن بل کے مسودے کو سمجھنے والے عوام نے ان کے بے بنیاد بیان کو ذرہ برابر بھی اہمیت نہیں دی۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں بشمول آسام، تری پورہ اور میگھالہ میں بل منظور ہونے کے بعد سے بڑے پیمانے پرمظاہرے شروع کردئیے گئے۔نارتھ ایسٹرن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے آسام کے تمام تعلیمی اداروں میں بل کے خلاف مظاہرہ کیا جبکہ عالمی میڈیا کے مطابق آسام میں ایسی کوئی یونیورسٹی باقی نہیں بچی جہاں دن میں مظاہرے اور رات کے وقت مشعل کے ساتھ جلوس نہ نکلتے ہوں۔
غیرملکی خبر رساں اداروں کے مطابق بھارت کی متعدد ریاستوں میں شہریت کے متعصبانہ قانون کے خلاف مظاہرے ہوئے جن میں کانپور، احمد آباد، لکھنؤ، سرت، آراریہ اور حیدر آباد شامل ہیں جبکہ گایا، اعظم گڑھ، مظفر نگر، گووا، کالی کٹ اور یوات مل کے ساتھ ساتھ دیگر متعدد علاقوں میں مظاہرے پرتشدد ہوگئے جن میں زخمی اور ہلاک ہونے والوں کی درست تعداد معلوم نہیں کی جاسکی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کا واقعہ
نریندر مودی حکومت کے متنازعہ شہری بل کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے مظاہرہ کیا جس کے خلاف متعصب بھارتی حکومت نے طلبہ و طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
طلبہ کی طرف سے احتجاج کے اعلان کے بعد بھارتی پولیس نے جامعہ ملیہ یونیورسٹی کی کلاسز اور لائبریری میں داخل ہو کر نوجوانوں اور امام مسجد کے ساتھ مارپیٹ کی۔ جامعہ ملیہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ پولیس نے یونیورسٹی میں داخل ہونے سے قبل کوئی اجازت نہیں لی، نہ ہی کوئی وارنٹ دکھایا گیا۔
طلبہ پر تشدد اور امام مسجد کے ساتھ مارپیٹ کے واقعے کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کا احتجاج شدت پکڑ گیا جس کے بعد طلبہ نے رات بھر سڑکوں پر سراپا احتجاج رہ کر ایک بڑی ریلی نکالی اور پولیس ہیڈ کوارٹرز کے سامنے مظاہرہ کیا۔ پولیس نے تشدد واقعے کے دوران طلبہ کی بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا تھا جس کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔
دو قومی نظرئیے پر قائد اعظم کا شکریہ
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پرپاکستان میں تھینک یو جناح آج (17 دسمبرکو) ٹاپ ٹرینڈز میں سے ایک ہے جس میں بیس ہزار سے زائد ٹویٹس کی گئیں۔
سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ بھارت میں جاری ہنگاموں کے پیش نظر ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ بھارت آج صرف ہندوؤں کا ملک بن چکا ہے جہاں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سیکولرازم یعنی لادینیت کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر آپ ہندو نہیں ہیں تو آپ بھارت میں نہیں رہ سکتے، نہ ہی شہریت پر آپ کا کوئی حق تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ متنازعہ شہریت بل کو دیکھتے ہوئے بھارت میں موجود مسلمان بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ قائد اعظم کا دو قومی نظریہ درست تھا۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ٹوئٹر صارفین قائد اعظم محمد علی جناح کا شکریہ ادا کر رہے ہیں اور تھینک یو جناح کو ٹاپ ٹرینڈ بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ پیغامات دئیے جا رہے ہیں۔
شہریت ترمیمی بل کے خلاف بھارتی ریاستوں کا ردِ عمل
بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کرنے کے ساتھ ہی شہریت کا متنازعہ ترمیمی بل قانون کی حیثیت اختیار کرگیا، تاہم پنجاب اور مغربی بنگال کے ساتھ ساتھ بھارت کی دیگر 5 ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے بل کو اپنی اپنی ریاست میں نافذ کرنے سے انکار کردیا۔
آئینِ ہندوستان کے مطابق صدر کے دستخط کے بعد تکنیکی طور پر قانون کا نفاذ ضروری ہے، تاہم ملک گیر ہنگاموں کے پیش نظر پنجاب، کیرالہ اور مغربی بنگال کے وزرائے اعلیٰ نے بل کے عملی نفاذ کی حکومتی ہدایت کو مسترد کردیا، اس کے باوجود ملک گیر احتجاج تھمنے میں نہیں آتا۔ بھارتی ریاست چھتیس گڑھ اور مدھیا پردیش کے وزرائے اعلیٰ نے بھی بل کے نفاذ کی حمایت نہیں کی۔
قانون سپریم کورٹ میں چیلنج
شہریت کا متنازعہ بل مودی حکومت نے منظور کیا، تاہم بھارتی سپریم کورٹ میں اسے چیلنج کردیا گیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق متنازعہ قانون کو بھارتی یونین مسلم لیگ نامی سیاسی پارٹی کے رہنماؤں نے چیلنج کرتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دیا ہے۔
پاکستان کا ردِ عمل
پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھارت کے متنازعہ شہریت بل کے خلاف وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود نے قرارداد پیش کی جو متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مذہبی بنیادوں پر ایکٹ بھارت کے انتہا پسندانہ عزائم کا آئینہ دار ہے۔
قرارداد کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ بھارتی ریاستوں میں بھی مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزی جاری ہے۔ ہم بھارتی شہریت ایکٹ کی مذمت کرتے ہیں اور اس کی متنازعہ شقیں واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق بھارت میں پر امن مظاہرین پر تشدد کیا جاتا ہے جو پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کی نظر سے گزر رہا ہے۔
جامعہ ملیہ دہلی پر پولیس نے نہتے بچوں پر حملہ کردیا جس کے بعد بچیوں کی ٹانگیں توڑ دی گئیں۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی ظلم و بربریت کی گئی۔ آج پوری مسلم امہ دیکھے کہ سانحہ گجرات تازہ کیا جارہا ہے۔ 2002ء میں گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کروایا، آج پورے ہندوستان میں وہی داستان دہرائی جا رہی ہے۔ بھارت میں سکھ، ہندو اور پارسی تو قبول ہیں لیکن مسلمانوں کی کوئی جگہ نہیں ۔
بین الاقوامی ردِ عمل